بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

ویب سا ئٹ پر ابھی کام جاری ہے۔

اقوام عالم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ قوموں کے عروج و زوال کا تعلیم سے گہرا تعلق رہا ہے۔علم اور تعلیم کے ثمرات و برکات ہی قوموں کو ترقی کی طرف لے جاتے ہیں۔زمانۂ قدیم میں یونان، علوم و فنون کی وجہ سے اقوامِ عالم کا اما م اور راہنما تھا۔قرون ِوسطیٰ میں یہ اعزاز مسلمانوں کو حاصل ہوا تو فقط علم اور تعلیم کی وجہ سے(سپین میں مسلمانوں کی تاریخ گواہی  دیتی ہے۔)آج مغرب عالمِ اقوام کا اما م ہے تو محض علم اور تعلیم کی وجہ سے۔

                علم اور تعلیم کی افادیت ’’علمِ نافع‘‘سے وابستہ ہے یعنی علم برائے علم نہیں بلکہ علم برائے انسانی سربلندی اور خوشحالی۔مسلمانوں کے ہاں تو علم کی اہمیت اس لیے ہے کہ سرچشمۂ علم ،خالقِ کائنات ہے۔اس نے  عَلَّمَ آدَمَ الْاَ سْمَاءکُلَّھَا  کے ذریعے انسان کو ملائکہ پر فوقیت عطا کی اور  عَلَّمَ الْاِ نْسَا ن مَالَمْ یَعْلَمْ  فرما کر انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔اسلام میں علم کی اہمیت دو گنا ہے۔ فرمانِ رسولﷺ ہے:  طَلَبُ الْعِلْمُ فَرِیْضَۃ عَلٰی کُلّ ِ مُسْلِمِ وَّ مُسْلِمَۃ  ،پھر آپﷺ نے یہ بھی فرمایا :  اِنَّمّا بُعِثْتُ مُعَلّمَا  یعنی مجھے اپنی امّت کے لیے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے بلکہ خالقِ کائنات نے  عَلّمُھُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃ   فرما کرآنحضورﷺ کو مامور کیا کہ وہ لوگوں کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں۔

                اس علم کے اثرات بہت دُور رس اور وسیع ہیں۔ اسلام کا مطمحِ نظر یہ ہے کہ خلقِ خداعلم اور تعلیم سے فیض یاب ہو۔ جنگِ بدر میں جو کفّار قید کیے گئے،ان میں سے جو پڑھے لکھے تھے ، ان کی رہائی کے لیے یہ شرط رکھی گئی کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دیں۔مسلمانوں کے ہاں حصولِ علم کےلیے سفر کی ایک توانا روایت موجود ہے ۔طالبانِ علم سالہا سال تک گھر سے دوررہ کراور دُور دراز کے خطرناک سفر کر کےتعلیم حاصل کرتے تھے۔شیخ عبدالقادرجیلانی کا واقعہ اس کی ایک مثال ہے ۔

                بطورِ متعلّم انھیں سکاچ مشن سکول ،مرےکالج سیالکوٹ،گورنمنٹ کالج لاہوراور لندن ،کیمبرج اورمیونخ جیسے اعلیٰ تعلیمی مراکزسے حصولِ علم کا تجربہ حاصل ہوا۔اور بطور ایک معلّم انھوں نے اورینٹل کالج لاہور ، گورنمنٹ کالج لاہوراور لندن یونی ورسٹی ،پھر ولایت سے واپسی پرمختصر عرصے کے لیےاسلامیہ کالج لاہوراور گورنمنٹ کالج لاہورمیں تدریسی خدمات انجام دیں۔ پنجاب یونی ورسٹی کے متعدد اداروں(سینٹ، سنڈیکیٹ،بورڈ آف سٹڈیز،ڈین)سے واابستہ رہے۔مختلف جامعات کے نصابات کی ترتیب میں مدد دی۔بطور ممتحن بھی کام کیا۔ یوں تعلیم کے بارے میں ان کے نظریات ذاتی مشاہدے،تجربے اور عمر بھر کےعمیق مطالعے کا نچوڑ ہیں۔اس طرح علامہ اقبال اصطلاحاً ایک educationistتھےاور واقعتاًبھی وہ  ایک معلّم اور ماہرِ تعلیم تھے۔

                علّامہ کے زمانے میںہندُستان میں دو طرح کے تعلیمی نظام رائج تھے۔اوّل:قدیم دینی مدارس کا نظام تعلیم۔ دوّم:جدید تعلیمی نظام جسےبرطانوی حکومت نے غلام ہندُستان میں رائج کیا تھا اور یہ مغربی فکروروایت پر اُستوار تھا۔

                قدیم نظام ِ تعلیم اپنے دور کا جدید ،بہترین اور مکمل نظام تھا۔دینی تعلیم ان کے لیے روشنی کاچراغ تھی۔ایسا چراغ جو شاہراہِ حیات پر اُنھیں بھٹکنے سے بچاتا تھا۔معاش کی فراہمی کے لیے انھیں دستکاری،خوش نویسی،طِب اور جلدبندی جیسے ہنر سکھائےجاتے تھے۔شاہانِ وقت مدرسوں کی کفالت اور سرپرستی کرتے تھے۔ایک ہندو مورّخ اور فلاسفر دھرم پال جی (م: ۲۰۰۶ء) نے انگریزی میں متعدّد کتابیں تحریر کی ہیں۔ان کے حوالے سے اوریا مقبول جان لکھتے ہیں کہ دھرم پال جی نے تاریخی حقائق اور دستاویزی ثبوتوں کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ بر عظیم پاکستان و ہند کا یہ خطّہ ، انگریزوں کی آمد سے پہلے، علم و عرفان، تہذیب و ثقافت، سائنس و ٹیکنالوجی اور اصولِ مدنیّت میں دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ تھااور اس ترقی کو انگریزوں نے ایک منصوبے اور بد نیّتی کے ساتھ تباہ و برباد کر دیا۔(روزنامہ ۹۲ نیوز۔لاہور، ۲۰؍ مارچ ۲۰۲۱ء)  ـمغلوں کی حکومت نہ رہی تو مدارس تقریباََ اجڑ گئے۔مدارس کا نظام بے کسی کا شکار ہوگیا۔انگریزوں نے معاش کو جدید تعلیم سے وابستہ کر دیا تھا۔مدارس کے تعلیم یافتہ طلبہ کو نوکری نہیں ملتی تھی۔چنانچہ قدیم تعلیم رفتہ رفتہ زوال پذیر ہو گئی۔ تباہی کے اثرات دور رس تھے۔علما بسم اللہ کے گنبد میں بندہو گئے۔معاشرے نے بھی علما کوکمین اورکمی بنا دیا۔خود علما بھی فرقہ واریت کے مرتکب ہوئے۔علّامہ اقبال نے پیام مشرق کے دیباچے میں افراد اور اقوام کی باطنی تربیت پر زور دیامگر قدیم نظام تعلیم نہ تعمیر شخصیت وکردار کرتا ہے، نہ خودی کی پرورش، چنانچہ علامہ اقبال ملّا پرتنقید کرتے ہیں جو قدیم نظام تعلیم کا نمائندہ ہے:

                                                                                قوم کیا چیز ہے؟قوموں کی امامت کیا ہے؟

                                                                           اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام    (ضربِ کلیم ، ص ۳۷)

                اسی طرح کہتے ہیں:

                                                                                تری نماز میں باقی جلال ہے  ،نہ  جمال

                                                                                تری  اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام     (ضربِ کلیم ، ص ۳۶)

                ضربِ کلیم کی نظم ’’غلاموں کی نماز‘‘ اس سلسلے میں اقبال کے نقطۂ نظر کو واضح کرتی ہے۔

                جہاں تک جدید نظام تعلیم کا تعلق ہے۔اس کے خاص مقاصد ہیں۔اس کی ترویج کے پس پردہ واضح سامراجی عزائم تھے۔ اس کی جڑیںمغربی فکر میں ہیں۔ اگرچہ ابتدا میںمقامی علوم و فنون اور زبانوں کے بارے میں انگریزوں کا رویّہ حوصلہ افزا تھا۔ (اردو کی ترقی کے لیے فورٹ ولیم کا لج کا قیام اور بعض قدیم مدرسوں کی سرکاری اعانت)لیکن جلد ہی لارڈ میکالے صاحب نےہندُستان میں ’’نزولِ اجلال‘‘ فرمایا، معروفِ زمانہ رپورٹ مرتب کی جس نے انگریزوں کےاصل عزائم کو واضح کر دیا ،یعنی اوّل :کلر کوں کی ایک فوج پیدا کی جائے۔دوّم:ماضی سے مسلمانوں کا ذہنی رشتہ منقطع کیا جائے۔ سوم: انھیں مذہب اور دین سے ممکنہ حد تک دور اور بیگانہ کر دیا جائے۔اکبر نے کیا خوب کہا تھا:

مشرقی تو سرِ دشمن کو کچل دیتے ہیں

مغربی اس کی طبیعت کو بدل دیتے ہیں

                یعنی انگریزوں نے جدید تعلیم کے ذریعے ہندُستانی باشندوں کی قلب ماہیت کر دی۔علّامہ اقبال نے خطبۂ علی گڑھ میں حسب ذیل شعر نقل کیا ہے:

شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے

دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے

جدید تعلیم نے نہ صرف دل بدل ڈالے ، بلکہ نصابات اور انداز وطریقِ تدریس بھی بدل ڈالا۔سکولوں ،کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی عمارتیں،؎ فرنیچر، تجربہ گاہیں (لیبارٹریز)،تدریسی معاون اور آلات تو نہایت جدید اور مرعوب کن حد تک شان دار ہیںمگر طلبہ کی شخصیت ،ان کی سیرت وکردار اور ان کی اخلاقیات مغربی فکر سے مرعوبیت کے بوجھ تلے دب گئی۔بہ الفاظِ دیگر وہ فکری انتشار کا شکار ہو گئے۔نئی تعلیم کی یہ سب خرابیاں اقبال کی نگاہ میں تھیں۔پھر انھیں جدید تعلیم کا ذاتی تجربہ بھی حاصل تھا چنانچہ انھوں نے جدید تعلیم کو ملّی امنگوں اور قومی تقاضوں کے مطابق نہ پا کر مسترد کر دیا۔اقبال کے نزدیک اس کی وجوہات درجِ ذیل تھیں:

۱۔الحاد اور بے دینی ومذہب بے زاری:

جیسا کہ اوپر بھی ذکرہوا ،جدید تعلیم کے پس منظر میں مغربی فکر کام کر رہی ہےجس کا ایک خاص طرز پر ارتقا ہوا۔کلیسا کا رویّہ استبدادی تھا۔ ردّعمل میں لوگ مسیحیت سے بھی بے زار ہو گئے (سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑا یا۔)لا دینیت (Seculairsm) کے نتیجے میں عقل کو ترجیح دی جانے لگی۔ طرح طرح کے فلسفیانہ نظریات سامنے آئے، مثلاً:کائنات خود بخود وجود میں آگئی ہے اور طبعی قوانین کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ڈارون کے نظریۂ ارتقا(Theory of Evolution)کے مطابق مادّے سے حیات (Life) خودبخودنمودار ہو گئی ہے۔اخلاقیات اضافی ہیں۔انسانی اعمال کے محرک جنسی جذبات ہیں۔ (فرائڈ) میکاولی(۱۴۴۹ء – ۱۵۳۲ء)نے The Prince کے نام سےمغربی حکمرانوں کو ایک ’’صحیفہ ‘‘لکھ کر دیا جس کےمطابق سیاست اور حکمرانی میں دھوکا ،فریب، دغا،مکاری ،جھوٹ،جیسے’’ اوصاف ‘‘کامیابی کے لیے ناگزیر ہیں۔ان سب کے اثرات تعلیم میں بھی موجود تھے۔علّامہ کہتے ہیں :

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ    (بانگِ درا،ص ۲۳۸)

الحاد، جدید تعلیم کا منطقی تقاضا ہے:

                                                                                     محسوس پر بنا ہے علوم جدیدہ کی

                                                                            اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش    (بانگِ درا، ص ۲۷۶)

اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم       

ایک سازش ہے فقط دین ومروت کے خلاف  (ضربِ کلیم ، ص ۹۹) 

ہندی مسلمانوں کے سامنے جدید تعلیم کا نمونہ یا ماڈ ل علی گڑھ تھا۔(قیام :سکول ۱۸۵۷ ء-کالج ۱۸۷۷ء -یونی ورسٹی ۱۹۲۱ ء)سر سیّد نے ایک خواب دیکھا تھا:فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہو گا،نیچرل سائنس بائیں ہاتھ میں اور ’’لَا اِلَہٰ اِلّاَ اَللہ  مُحَمَّدْالرَسُوْل اللہ کا تاج سر پر ‘‘لیکن وہ بھی بالآخرمایوس ہو گئے ۔آخری عمر میں اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔

اقبال نے خطبۂ علی گڑھ The Muslim Community A Sociological Study میں کہتے ہیں:

Our youngman who is deplorably ignorant of the life-history of his own community, has to go to the great personalities of western history for admiration and guidance. Intellectually he is a slave to the west, and consequently his soul is lacking in that healthy egoism which comes from a study of ones own history and classics.

(تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ ، ص ۴۹۵)

یعنی ہمارا نوجوان جو اپنی ملّتِ اسلامیہ کی تاریخ سے قطعی نابلد ہے، اُسے تحسین اور راہ نمائی کے لیے مغربی تاریخ کی عظیم شخصیات کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ذہنی و عقلی لحاظ سے ، وہ مغرب کا غلام ہے۔ نتیجتاً اس کی روح خودی کے اس صحت مندانہ تصوّر سے خالی ہے جو اپنی ملّت کی تاریخ اور کلاسک [لٹریچر]کے مطالعے سے پیدا ہوتی ہے۔مولانا حالی ،سر سیّد احمد خاں کے مدّاح تھے اور ان سے غایت درجہ محبّت رکھتے تھے مگر وہ بھی علی گڑھ کی تعلیم پر تنقید کرتے ہیں اوراس کی خامیاں واضح کرتے ہیں۔ حیات جاوید میں لکھتے ہیں:’’جدید تعلیم کے نتیجے میں ہندو،مسلمان ،اور عیسائی کے دل میں مذہب کی محبت کی وقعت باقی نہیں رہی۔اس کے عقیدے ،نبوّت اور معاذ بلکہ الوہیّت کی طرف سے بھی متزلزل ہو جاتے ہیں۔[اقبال کہتے ہیں:آیا ہے عقیدوں میں تزلزل ]۔انھیں [سر سیّد ]کو معلوم تھا کہ مغربی علوم اور مغربی لٹریچر کی بدولت اکثر ممالکِ یورپ میں روز بروز دہریت اور الحاد پھیلتا جاتا ہے ‘‘۔(بحوالہ :اوریا مقبول جان ،روز نامہ ۹۲ نیوز لاہور، ۲۵ ؍جولائی ۲۰۲۰ ء)

۲۔مقصد تعلیم :

مسلمانوں کے نزدیک علم کا حصول، راہ نمائی یا ہدایت کے لیے کیا جاتا ہے تا کہ انسان اندھیرے اجالے اورکھرے کھوٹے میں تمیز کر سکے۔معاش ثانوی حیثیت رکھتی ہے مگر جدید تعلیم کا مقصد محض مادی ہے۔اقبال کے نزدیک جدید تعلیم معاش کا لالچ دے کر انسان کی روح قبض کر لیتی ہے اور اس کا ذہن اور اس کا دل اپنے پاس رہن رکھ لیتی ہے :

عصرِ حاضر ملک الموت ہے تیرا جس میں

قبض کی روح تری دے کے تجھے فکرِ معاش   (ضربِ کلیم ، ص ۹۶)

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں

جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دوکفِ جو   (ضربِ کلیم ، ص۱۷۸)

جدید تعلیم انسان کو غوروفکر پر آمادہ نہیں کرتی، فقط اسے مادّہ پرست بناتی ہے۔چنانچہ وہ زیادہ سے زیادہ رقم کے حصول اور بڑے عہدے اور اونچے مرتبے یا منصب تک رسائی کے لیے ہاتھ پاؤں مارتاہے۔اس تگ ودو میں بے شک وہ انگریزی ،سامراجی نظام کا ایک کل پرزہ بن جائے اور انگریزوں کی غلامانہ اطاعت قبول کر لے:

آہ !مکتب کا جوانِ گرم خوں

ساحرِ افرنگ کا صیدِ زبوں   (بالِ جبریل ، ص ۱۴۰)

المیہ تویہ ہےکہ جدید تعلیم یافتہ ہندیوں میں غالب تعداد محض کلرکوں اور منشیوں کی تھی۔  Indian Civil Service   کے اعلیٰ منصب تک بہت کم لوگ پہنچے ۔ اس زمانے میں انگریزوں کے ماتحت کسی شخص کو اگر درخواست لکھنی ہوتی تو آخر میں وہ یوں لکھتا:

I am,sir yours most obedient servant 

انگریزوں نے نظام تعلیم ایسا مرتب کیا کہ ہندی باشندے پیشہ ورانہ اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم بہت محدود پیمانے پر حاصل کر سکے۔ ۱۹۰۱ ءاور ۱۹۰۲ ءتک پورے ہندُستان میں صرف چارمیڈیکل ،چار انجینئرنگ کالج اور چار ویٹرنری اور ٹیکنیکل ادارے قائم تھے۔ باقی کالج صرف علوم عمرانی (آرٹس) کی تعلیم دینے تک محدود تھے ۔کالجوں کے تعلیم یافتہ چھوٹی موٹی نوکری کر لیتے تھے اور کولھو کےبیل کی طرح ساری عمر اس معمولی نوکری میں گزار دیتے تھے۔اکبر الٰہ آبادی کہتے ہیں:

میں کیا کہوں ،احباب کیا کارِنمایاں کر گئے

بی اے ہوئے،نوکر ہوئے،پنشن ملی اور مر گئے

ایسی بے مقصد تعلیم کو علّامہ’’ خاکبازی ‘‘ کے مترادف قرار دیتے ہیں:

شکایت ہے مجھے یا رب خدا وندانِ مکتب سے

سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا   (بالِ جبریل ، ص  ۳۶۸  ۔ ۳۷۲)

                دین تو ہاتھ سے گیا، دنیا بھی خاطر خواہ طریقے سے حاصل نہ ہو سکی ۔جدید نظام تعلیم کی ایک اور ’’خوبی‘‘ مغرب سے حددرجہ مرعوبیّت ہے جو ایک طرح سے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کی نسل کشی تھی۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں:’’مغربی نظام تعلیم درحقیقت مشرق اور اسلامی ممالک میں ایک گہرے قسم کی ،لیکن خاموش نسل کشی (genocide)کے مترادف تھا۔عقلائے مغرب نے ایک پوری نسل کو جسمانی طور پر ہلاک کرنے کے فرسودہ اور بدنام طریقے کو چھوڑ کر اس کو اپنے سانچے میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا اور اس کام کے لیے جا بجا مراکز قائم کر لیے۔ ‘‘بقول اکبر الٰہ آبادی :

یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا

افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

جدید تعلیم انسانی خودی کو غیر محسوس انداز میں موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔خود اعتمادی ختم اور ہرمسئلے پر نظر یں مغرب کی طرف اٹھتی ہیں۔علّامہ کہتے ہیں :

اقبال یہاں نام نہ لے علم خودی کا

موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات    (ضربِ کلیم ، ص ۹۱)

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے، اسے پھیر      (ضربِ کلیم ، ص ۱۶۶)

تاثیر میں اکسیر سےبڑھ کر ہے یہ تیزاب

سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر       (ضربِ کلیم ، ص ۱۶۶)

علم میں دولت بھی ہے ،لذت بھی ہے،قدرت بھی ہے

ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ   (ضربِ کلیم ، ص ۹۲)

                خودی کی موت کا نتیجہ سیرت وکردار کی پستی کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔پست ہمتی،بزدلی اور تن آسانی ۔مسلم معاشرے کا نظامِ اخلاق مسلمانوں کو دوسروں سے ممتاز بناتا ہے مگرمسلمانوں کے اس نظامِ اخلاق سے انحراف کے نتیجے میں انسان ملّی تشخص سے بے بہرہ ہو جاتا ہے اور اس کے دل و دماغ میں بے یقینی اور تشکیک کو فروغ ملتا ہے :

علمِ حاضر پیشِ آفل درسجود

شک بیفزودو یقیں از دل ربود           (زبورِ عجم ، ص ۱۸۷)

                اس حوالے سے علّامہ اقبال فنونِ لطیفہ کی بعض شاخوں پر تنقید کرتے ہیں۔ خصوصاً ڈرامے کو وہ نا پسند کرتےتھے کیوں کہ ڈرامے کے کردار، اپنی خودی کا چولا اتار کر کسی اور شخص کا بناوٹی کردار ادا کرتے ہیں:

  حریم تیرا ،خودی غیر کی، معاذ اللہ

دوبارہ زندہ نہ کر لات ومنات     (ضربِ کلیم ، ص ۱۱۸)

یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے

رہا نہ تو ،تو نہ سوزِ خودی ، نہ سازِ حیات  (ضربِ کلیم ، ص ۱۱۸)

اسی طرح اقبال کے نزدیک موسیقی اور مجسمہ سازی بھی محکوموں کے مشغلے ہیں:

محکوم کے حق میں یہی تربیت اچھی

موسیقی و صورت گری وعلم نباتات    (ضربِ کلیم ، ص ۹۲ )   

                تعلیم کا مقصد انسانی باطن کی تربیت اور تہذیبِ نفس ہے اسی طرح ایسی سمجھ بوجھ، دانش اور بصیرت کا فروغ ہے جو انسان کے اندر حکیمانہ نظر پیدا کرے تا کہ وہ اشیا کی ماہیت کو سمجھ سکے:

علم وفن را اے جوانِ شوخ وشنگ

مغزمی باید، نہ ملبوسِ فرنگ

اندریں رہ جُز نگہ مطلوب نیست

ایں کلہ یا آں کُلہ مطلوب نیست

طبع ِدرّا کے اگر داری بس است       (جاوید نامہ ، ص ۱۷۸)

                اس طرح علّامہ اقبال دونوں تعلیمی نظاموں سے غیر مطمئن اور مایوس تھے۔ اور انھوں نے دونوں کو مسترد کر دیا۔

              مکتبوں میں کہیں رعنائی ِ افکار بھی ہے ؟

خانقاہوں میں کہیں لذّتِ اسرار بھی ہے؟   (بالِ جبریل ، ص ۶۸  /    ۷۲)

اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے غمناک

نہ زندگی ، نہ محبّت ، نہ معرفت ، نہ نگاہ (بالِ جبریل۵۴/۵۸)

نہ فلسفی سے، نہ ملّا سے ہے غرض مجھ کو

یہ دل کی موت، وہ اندیشہ و نظر کا فساد (بالِ جبریل۷۶ /۷۲)

جلوتیانِ مدرسہ کو ر نگاہ و مردہ ذوق

خلوتیانِ مے کدہ کم طلب وتہی کدو(بالِ جبریل ۱۱۴/۱۱۶)

                اب، ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم وجدید تعلیم کو مسترد کرنے کے بعد اقبال کس طرح کا نظام تعلیم چاہتے تھے۔

                اقبال صرف ایسی تعلیم کے قائل تھے جو انسان کے باطن ،دل ودماغ اورضمیر کو روشن کرے۔ اس کی عقل اور فہم میں اضافہ کرے اور اس کا تزکیۂ نفس کرے۔ اگرچہ وہ مجرّد تعلیم کو بھی انسانی زندگی کے لیے ضروری اور ناگزیر سمجھتے تھے اور اقبال جبری تعلیم کے حق میں تھے۔( ۸؍ فروری ۱۹۲۱ء کوحبیبیہ ہال لاہور میں اقبال کی صدارت میں ایک جلسہ ہوا جس میں اسمبلی میں گھوکھلے کےپیش کردہ لازمی تعلیم کے مسوّدے کی حمایت کی گئی ۔ )مگر وہ علم اور تعلیم میں مقصدیت کے قائل تھے۔وہ مقاصدِ علم پر زور دیتے ہیں ۔ ان کے خیال میں علم کا مقصدفقط آگاہی یا جان لینایا کچھ معلومات کا حاصل کر لینا نہیں ، بلکہ تعلیم کو خودی کی بقا اور استحکام میں معاون ہونا چاہیے :

آگہی از علم وفن مقصود نیست

غنچہ وگل از چمن مقصود نیست

علم از سامانِ حفظِ زندگی است

علم ازاسبابِ تقویمِ خودی است     (اسرار و رموز ، ص ۱۷)

                یوں علّامہ اقبال تعلیم کو زندگی سےوابستہ اور مربوط کرتے ہیں ۔ وہ’’ تعلیم برائے زندگی‘‘ کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک تعلیم ایسی ہونی چاہیے جو زندگی کی تعمیرو تشکیل میں مدد دےاور اسے بہتر اور خوبصورت بنائے۔ اسی طرح تعلیم ایسی ہو جو طلبہ کو لادینی افکار ونظریات ، اور تخریبی عناصر سے محفوظ رکھے۔

                دراصل اقبال تعلیم کی تشکیلِ نو، دینی بنیادوں پر کرنا چاہتے تھے ۔ ایسی تعلیم جس میں دین کا ہمہ گیر اور وسیع مفہوم موجود ہو اور وہ پورے نظام تعلیم کا مزاج متعین کرے۔ ان کے نزدیک بچوں کی تعلیم کا آغاز قرآن حکیم کی تعلیم وتدریس ہونا چاہیے۔ خطبۂ علی گڑھ میں وہ کہتے ہیں:

Those who laid it down as a fundamental principle that the education of the muslim child must begin with the study of Quran, no matter whether he understands it or not, were certainly much more sensible of the nature of our community claim to be.

(تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ ، ص ۴۹۶)

                یعنی ’’وہ لوگ ،جنھوں نے تعلیم کا یہ اصول قائم کیا تھا کہ ہر مسلمان بچے کی تعلیم کا آغاز(چاہے وہ سمجھتا ہے یا نہیں) قرآن مجید کی تعلیم ہونا چاہیے۔ وہ ہمارے مقابلے میں ہماری قوم کی ماہیّت ونوعیت سے زیادہ باخبر تھے ۔ ‘‘(مقالاتِ اقبال، ص ۱۷۴)۱۹۳۱ءمیں گول میز کانفرنس (لندن) سے واپسی پر دہلی ریلوے اسٹیشن پر ایک جمّ غفیر اُن کے استقبال کے لیے جمع تھا ۔ استقبالیہ تقریر کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا:’’میں نوجوانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ قرآنِ پاک کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کو پیشِ نظر رکھیں۔ ‘‘ (روزنامہ انقلاب ، ۱۲؍ ستمبر ۱۹۳۱ء بحوالہ گفتارِ اقبال ، ص ۱۳۶)

                سیالکوٹ کے میاں رشید احمد اپنے والد اور پانچ چھوٹے بھائیوں کے ہمراہ علّامہ سے ملاقات کے لیے جاوید منزل پہنچے۔پانچوں بھائی میاں رشید احمد سے چھوٹے تھے۔علّامہ نے بچّوں کو اپنے پاس بٹھا لیا ۔ میاں رشید احمد کے والد نے گزارش کی کہ ان ننھے طالبِ علموں کو، جو مدّت سے آپ کو دیکھنے کے مشتاق تھے ، کچھ نصیحت فرمائیں۔ علّامہ نے فرمایا:’’یاد رکھو، مسلمانوں کے لیے جائے پناہ صرف قرآنِ کریم ہے۔۔۔میں اس گھر کو صد ہزار تحسین کے قابل سمجھتا ہوںجس گھر سے علی الصّبح تلاوتِ قرآنِ مجید کی آواز آئے۔کلامِ مجید کا صرف مطالعہ ہی نہ کیا کرو،بلکہ اُس کو سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘(روزنامہ انقلاب ، ۳؍ فروری ۱۹۳۸ء بحوالہ گفتارِ اقبال ، ص ۲۱۲)

                اقبال کے نزدیک تعلیم، عورتوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری اور ناگزیر ہے جس قدر مرد کے لیے ۔اسے تعلیم سے محروم رکھنا بہت بڑا ظلم ہے۔ علّامہ جس زمانے میں انجمن حمایتِ اسلام کے صدر تھے ،انھوں نے انجمن پر زور دیا کہ وہ مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کا فوری بندوبست کرے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خواتین کے لیے ایک مستقل اور علاحدہ یونی ورسٹی کا خواب سب سے پہلے اقبال نے دیکھا تھامگر وہ لڑکیوں کے لیے تعلیمِ محض کے قائل نہ تھے۔ ان کے خیال میں خواتین کی ذہنی تربیت کے لیے دین ومذہب کی تعلیم ضروری ہے۔اگرتعلیم  میں دین ومذہب کا عمل دخل نہ ہوتو ایسی تعلیم علّامہ اقبال کے لیے قابلِ قبول نہیں:

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن

کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت    (ضربِ کلیم ، ص ۱۰۸)

بے گانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن

ہے عشق، محبت کے لیے علم وہنر موت   (ضربِ کلیم ، ص ۱۰۸)

خطبۂ علی گڑھ میں فرماتے ہیں:

All subjects which have a tendency to de-womanise and to de-Muslamise, must be carefully excluded from her education.

                                                                                                                                (تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ ، ص ۴۹۹) علّامہ اقبال کے نزدیک فطرت کا تقاضا ہے کہ مرد اور عورت اپنی اپنی استعداد وصلاحیت کے مطابق ، اپنے اپنے دائرہ کار میں مصروفِ عمل رہیں اور باہمی تعاون سے زندگی کو خوش گوار، کامیاب اور بامراد بنائیں ۔ علّامہ کا خیال ہے کہ اگر اسے اس کے اصلی فرائض سے ہٹا کر ایسے کاموں پر لگا دیا جائے جنھیں مرد انجام دے سکتا ہے تو یہ طریق یقیناً  غلط ہو گا۔یوں ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کی تعلیم کے بارے میں بھی علّامہ اقبال ایک متوازن اور معتدل نقطۂ نگاہ رکھتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You cannot copy content of this page