بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

ویب سا ئٹ پر ابھی کام جاری ہے۔

                اورینٹل کالج میں امجد اسلام ایک کلاس مجھ سے پیچھے تھے۔ میرا سیشن ۱۹۶۴ء-۱۹۶۶ء کا تھا، اور اُن کا ۱۹۶۵ء-۱۹۶۷ء ۔ یونی ورسٹی کے طلبہ میگزینمحّور کی ادارت میں بھی یہی صورت تھی۔راقم میگزین بورڈ کا چیئر مین اورمحّور کا چیف ایڈیٹر منتخب ہوا۔اگلے برسمحّور امجد اسلام کی ادارت میں شائع ہوا۔

                جب وہ سالِ اوّل میں داخل ہوئے، غالباً ستمبر ۱۹۶۵ء میں۔ یونی ورسٹی کے اندر اور بیرونی کالجوں میں بھی ہونے والے مشاعروں میں شعبۂ اُردو اور اورینٹل کالج کی نمائندگی کرنے لگے۔ بعض اوقات شاعری کے انعامی مقابلوں میں اوّل یا دوّم انعام بھی لے آتے۔

                راقم نے ۱۹۶۷ء-۱۹۶۹ء کا زمانہ متفرق مصروفیات میں گزارا۔(میونسپل ڈگری کالج چشتیاں، ایف سی کالج لاہور، ہفت روزہ آئین لاہور ،ماہ نامہ سیّارہ لاہور، ماہ نامہ اُردو ڈائجسٹ لاہور)چونکہ زیادہ تر لاہور میں رہا، اس لیے اِس عرصے میں وقتاً فوقتاً ملاقات ہو جاتی تھی۔ وہ ایم اے او کالج میں لیکچرر ہو گئے تھے۔ اُس زمانے میں وہ فلیمنگ روڈ پر رہتے تھے۔ اُن کے بالمقابل مکان میں میرے دوست حفیظ الرحمٰن احسن مقیم تھے۔ کبھی کبھی اُن کے ہاں جاتا ، تو امجد سے بھی ملاقات ہو جاتی۔ وہ چائے پلاتے اور شاعری بھی سناتے۔ فلیمنگ روڈ پر ہی پروفیسر آقا بیدار بخت رہتے تھے۔ وہ شاعری میں امجد کے استاد تھےاور کرکٹ میں بھی۔ آقا صاحب امجد کے ساتھ خود بھی کرکٹ کھیلا کرتے۔

                 آقا بیدار بخت بڑی خوبیوں کے بزرگ تھے۔ ایک اعتبار سے  وہ امجد اسلام کےمحسن تھے۔ آقاصاحب نے دارالعلوم شرقیہ کے نام سے ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارہ قائم کر رکھا تھا۔ اس زمانے میں میں بی اے کا امتحان پرائیویٹ طور پر نہیں ہوتا تھا۔ پہلے عربی، فارسی اور پنجابی میں سے کسی ایک زبان پاس کرنا پڑتا ، پھر انگریزی اونلی کا، پھر آپ آگے بڑھ سکتے تھے۔ اسے  “وایا بٹھنڈا” کہتے تھے۔ آقا صاحب نے اس راستے سے سینکڑوں نوجوانوں کو سو ل سروس میں بھیجا۔ امجد اسلام امجد کومطالعے سے دلچسپی تھی، آقا صاحب اُسے پڑھنےکے لیےاسےکتابیں دیتے اور کہتے:لے جاؤ اور پڑھو۔

                آقا صاحب کو خدا جنّت نصیب کرے۔ پرانے وقتوں کی بات ہے۔ تحریکِ آزادیِ کشمیر کے مجاہد سیّد علی گیلانی حصولِ تعلیم کےلیے سری نگر سے لاہور آئے تھے۔ آقا صاحب کے ادارے میں داخل ہوگئے۔ آقا صاحب نے اندازہ لگایا ہوگا کہ با صلاحیّت لڑکا ہے۔ گیلانی مرحوم لکھتے ہیں: انھوں  نے بغیر فیس لیے مجھے ادیب عالم میں داخلہ دے دیا حالاں کہ ابتدائی درجہ ادیب تھا۔ آقا صاحب نے علی گیلانی کو کلاسیکی شاعری پڑھائی۔وہ آقا صاحب کے  مدّاح تھے۔بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آقا صاحب ہر ایک کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔امجد اسلام نے ان سے یہ بات سیکھی اور اسے آگے منتقل کر دیا،مثلاً:امجد نے اوریا مقبول جان کو ڈرامانگاری پر لگا دیا۔

                امجد اسلام امجد اصلاً شاعر تھے۔ یوں تو انھوں نے بہت سی اصنافِ شعر میں طبع آزمائی کی، مگر راقم کے خیال میں وہ نظم کے شاعر تھے اور نظم بھی آزاد۔ اگرچہ انھوں نے ایک بڑا ذخیرہ غزل کا بھی یادگار چھوڑا ہے۔ امجد ،زمانہ طالب علمی میں مقبول تھےاورآخری زمانے تک ان کی مقبولیت ،نہ صرف برقرار رہی ،بلکہ اس میں اضافہ ہو گیا۔حالانکہ ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ان کی شخصیت اور شاعری میں کچھ ایسی کشش تھی کہ کوئی محفل ،کوئی مشاعرہ ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تھا۔

                امجد اسلام کی ایک حیثیت ڈراما نگار کی تھی ، اُن کے ڈراموں (وارث۔سمندر ) کی مقبولیت کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ بنیادی طور پر وہ ڈراما نگار تھے۔ ایسا کم ہوتا ہے کہ کوئی شخص درجۂ اوّل کا شاعر ہو اور ساتھ ہی درجۂ اوّل کا ڈراما نگار بھی۔ (راقم نے اُن کے افسانے بہت کم پڑھے، نہ پڑھنے کے برابر، اس لیے اُن پر کوئی رائے نہیں دے سکتا۔)

                ۱۹۷۴ء میں راقم نے ایک کتاب مرتّب کی: اصنافِ ادب۔ اِس میں ہر صنف کا تعارف کرانے کے بعد اُس کے نئے پرانے نمونے دیے گئے تھے۔عنوان  “نعت” کےتحت نئی پرانی نعتوں کے کچھ نمونے تھے۔ آزاد نعت کے نمونے کے طور پرمیں نے امجد اسلام کی حسبِ ذیل نعت شامل کی۔ (جو مجھے بہت پسند تھی اور آج بھی ہے):

اَبر،خورشید،قمر

  روشنی،پھول،صدا

  سب تھے موجود مگر

  ان کا مفہوم نہ تھا

  کوئی بھی چیز،کوئی چیز نہ تھی

  سِرِّ مخفی تھا خدا

  کوئی تخلیق نہ تھی

  حرفِ اقرار نہ تھا

  مہرِ توثیق نہ تھی

  سنگ اور گوہر نایاب میں تفریق نہ تھی

  آپؐ نے سردعناصر کو حرارت بخشی

  آپ نے،صلِ ّ علیٰ

 اَبر،خورشید،قمر

  روشنی،پھول،صدا

    سب کو مفہوم دیا

    حاجتِ کون و مکاں ،مقصد خلقِ بشر

      مجھ پہ بھی ایک نظر

        مجھ کو بھی دیجے کبھی

         میرے ہونے کا پتا

          یا نبی !صلّ ِعلیٰ یا نبی!  صلِّ علیٰ

             میراخیال ہے کہ اگر اردو نعتوں کا ایک کڑا انتخاب کیا جائے تو امجد کی یہ نعت اس میں جگہ پائے گی۔

            ایک بلند پایہ شاعر اورڈرامانگار اورایک بہت اچھا انسان ہم سے رخصت ہو گیا ۔بڑی محرومی ہے ۔باری تعالیٰ اسے بخشے اور اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے،آمین یا ربّ العالمین۔       

18 فروری 2023ء

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You cannot copy content of this page