بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

ویب سا ئٹ پر ابھی کام جاری ہے۔

یہ اللّہ کا نظام ہے۔ ہم جہاں سے آۓتھے،جوعہدکرکےآۓتھے،وہاں لوٹ کرایفاۓعہدکوثابت کرناہے۔انسان عہدکرنےمیں توبڑی عجلت دکھاتاہے،لیکن عہدکے تقاضے پورے کرنے میں سستی و کوتاہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ سواۓان نفوس کےجواس عہدوپیمانکوجوانھوں نےکیاتھا،اسکواپنی زندگی کامشن بنالیں۔رفیع الدین ہاشمی صاحب کاشماربلاشبہ ایسے ہی سعیدنفوس میں ہوتاہےجنہوں نےاوائل نوجوانی سےآخری سانسوں تک اپنے شب و روز ملک و ملت کی خدمت کے لیے وقف کیے رکھے۔

اور جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ یہ کام انھوں بڑی خاموشی سے، ہر قسم کی خودنمائی سے اجتناب کرتے ہوۓکیا۔انکاعلمی مقام بہت بلندتھا۔لیکن مجال ہےکہ وہ کسی پراس کارعب جمانےکی ادنی ٰسی کوشش بھی کرتےہوۓ کبھی پاۓگئے ہوں۔انکسارکایہ مقام،کہ علمیت کےہمالیہ پرکھڑےہونےکےباوجودآپ اپنےآپکوایک طالبِعلم کی طرح سمجھیں اور behave کریں، میں نے اپنی زندگی میں انکے علاوہ استاذی ظفر اسحاق انصاری صاحب کے علاوہ آج تک کسی میں نہیں پایا۔

ہاشمی صاحب سے میرا تعلق غالباً ۱۹۹۶ء سے قائم ہوا اور چند سالوں میں کافی گہرا ہو گیا۔ حدِ ادب کے لحاظ کیساتھ اور انکی خصوصی شفقت و انکساری کے باعث یہ تعلق استاد و شاگرد سے زیادہ دو ہم فکر احباب کا تھا جو عمر کے تفاوت کے باوجود پاکستان کے علمی، فکری و نظری منظر نامے کے حوالے سے بیک وقت پریشان بھی تھے اور اس کے حل کے لیے سوچ و بچار بھی کرتے رہتے تھے۔ مثلاً، ۲۰۱۰ء میں ہاشمی صاحب نے اپنی کتاب “علامہ اقبال: شخصیت اور فکر و فن” عنایت فرمائی ۔ مطالعے کے بعد میں نے کتاب کی تعریف کرتے ہوۓانسےعرض کیاکہ میرےخیال میں اس کتاب کومیٹرک یا پھر ایف اے کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔ ہاشمی صاحب کا جواب تھا کہ آپ میٹرک و ایف اے کی بات کر رہے ہیں، حالات تو کچھ ایسے ہیں کہ یہاں کا ایم اے کا طالبِ علم بھی اس کتاب کو مشکل سے پڑھے!

لیکن اس کے باوجود انھوں نے کبھی بھی مایوسی کو اس انداز سے اپنے اوپر طاری نہیں ہونے دیا کہ وہ کام کرنا چھوڑ دیں، کیونکہ وہ کام کسی داد و تحسین، یا پھر مال و متاع کے لیے نہیں بلکہ خدمت کے جذبے سے کرتے تھے۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور جس نے ہاشمی صاحب کو دیکھا، ان سے ملا، ان سے بات کی، وہ جانتا ہے کہ وہ اس اعتبار سے کتنے خالص آدمی تھے۔ مولانا مودودی ملک و ملت کے لیے جس قسم کے لوگ تیار کرنا چاہتے تھے، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی ذات اس کی بہترین نمائندہ تھی۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے ان کو اپنا ایک مضمون تصحیح کے لیے بھیجا۔ انھوں نے کہا کہ نہیں آپ نے ٹھیک لکھا ہے۔ میں نے اصرار کیا کہ اغلاط ہونگی، آپ تصحیح فرما کر ہی واپس کریں۔ بڑے اصرار کے بعد انھوں نے سرخ سیاہی کے قلم سے اکا دکا مقامات پر اغلاط کی نشاندہی کی(حالانکہ مجھے یقین ہے کہ اغلاط س زیادہ ہوں گی)۔ مثلاً، میری عادت ہے کہ بعض الفاظ کو جوڑ کر لکھتا ہوں۔ وہ اس کے قائل نہ تھے۔ اسی طرح ایک مرتبہ انھوں نے اصلاح فرمائی کے برادرِ خورد کوئی اچھی اصطلاح نہیں، اور کیوں نہیں اس کی بھی وضاحت فرمائی ۔ تقریباً تیس سال پر محیط تعلقات میں اس طرح محسوس و غیر محسوس انداز سے ان سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔

۲۰۱۰ء کے بعد میرا ان سے مسلسل اصرار رہا کہ جس طرز پر آپ نے علامہ اقبال پر کتاب لکھی ہے اسی انداز سے آپ مولانا موددی پر بھی لکھیں۔ وہ اس بات کی اہمیت سے متفق تھے لیکن وہ کتابیاتِ اقبال کی ذمہ داری اٹھا چکے تھے اور اسکی تکمیل کے بعد ہی مولانا مودودی کی سوانح حیات پر دلجمعی سے کام ممکن تھا۔ کتابیاتِ اقبال کی رونمائی تو ۱۰ اکتوبر ۲۰۲۲ کو ہوگئی، لیکن افسوس کے اب ہاشمی صاحب کے قلم سے مولانا پر کام مکمل نہ ہو پائگا۔۔۔

۲۰۱۶کو میں اپنی زندگی میں غم کا سال شمار کرتا ہوں کہ ایک ہی سال میں اپنے تین مربیوں، ڈاکٹر ممتاز احمد صاحب، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب اور پروفیسر مسلم سجاد صاحب، تینوں اللّہ کو پیارے ہوۓ۔ابھی یہ غم ہراتھاکہ بیچ سفر میں میرے ہر دلعزیز دوست و بھائی حسن صہیب مراد کا ۲۰۱۸ میں ساتھ چھوٹ گیا۔ اس کے بعد رخصت تو کئی لوگ ہوۓ،انکاغم بھی ہوا،لیک نرخصت ہونےوالےمربیوں ومحسنین  کی فہرست میں رفیع الدین ہاشمی صاحب کا اضافہ آج بہت تکلیف دہ ثابت ہو رہا ہے۔

اللّہ تعالیٰ انکو بلاحساب جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرماۓ۔

دفترِ ہستی میں تھی زریں ورق، تیری حیات

تھی سراپا دین و دنیا کا سبق، تیری حیات

٭….٭….٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You cannot copy content of this page