بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

ویب سا ئٹ پر ابھی کام جاری ہے۔

تاریخ پیدائش: 15دسمبر1941

مولد:تیجہ کلاں گورداسپور ۔

والد: عبد الغنی

چھ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے

ہجرت:1947میں اپنے والدین، چھوٹی بہن اور پانچ بڑے بھائیوں کیساتھ خاک و خون کا دریا عبور کرتے ہوئے نارووال کے قصبہ بدوملہی میں آباد ہوئے۔

تعلیم: بچپن میں ہی اپنے چچا حکیم عبدالرحمٰن خلیق مرحوم سے ترجمہ قرآن پڑھا۔

 گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول بدوملہی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔

۔ بدو ملہی کو قادیانیوں کے غلبے کیوجہ سے ربوہٰ ثانی بھی کہا جاتا ہے 1952 میں گیارہ سال کی عمر میں قادیانیوں کی عبات گاہ کے تھڑے پر کھڑے ہو کر ختم نبوت پر تقریر کر کے اپنے قصبہ میں قادیانیوں کیخلاف تحریک کا آغاز کیا اور اپنے بزرگوں اور بھائیوں کیساتھ مل کر قصبہ میں موجود واحد سکول جو کہ قادیانیوں کے زیر انتظام تھا کے مقابلے میں مسلمانوں کے اسلامیہ اسکول کے قیام کی تحریک چلائی

تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفےٰؐ اور مارشل لاء کیخلاف تحریک میں سرگرم حصہ لیا٠

دورانِ تعلیم علامہ اقبال اور سید مودودی کے مرید بنے۔ اقبال کےاردو کلام کے علاوہ فارسی کلام کا مطالعہ کیا

برسوں مولانا مودودی کے مبارک مسجد کے درس اور ذیلدار پارک اچھرہ کی عصری محافل سے علم وعمل کے موتی سمیٹتے رہے۔ مولانا مودودی کے سارے لٹریچر کا مطالعہ کیا اور مرتے دم تک تفہیم القرآن کے روزانہ مطالعہ کا معمول جاری رہا، DYF کے سرگرم کارکن رہے

روزگار: میٹرک کے بعد 1958 سے سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں لاہور میں رہے۔ رزقِ حلال کیلئے ملازمت کیساتھ ساتھ زرعی اجناس کی تجارت کرتے رہے۔

اچھے تیراک تھے سیلاب میں کئی افراد کی جانیں بچائیں اور جماعت اسلامی کے رفاعی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا

1973 میں فیملی کیساتھ وحدت کالونی لاہور میں شفٹ ہو گئے

سرکاری کوارٹر پر بھی جماعت اسلامی کا جھنڈا لگا کر رکھا

توحید باری تعالیٰ پر غیر متزلزل یقین تھا

لین دین کے بہت کھرے تھے یہاں تک اکبری منڈی کے تاجروں کو کہہ رکھا تھا کہ اگر میں آپ کو مقررہ دن پر ادائیگی کیلئے نہ پہنچ سکوں تو مجھے فون کرنے کی بجائے منصورہ آ کرمیرا نمازِ جنازہ پڑھ لینا اور میرے بیٹے سے اپنی رقم وصول کر لینا۔

اللہ کری نے انکے لین دین کے کھرے پن کی اسطرح لاج رکھی کہ وفات سے چند دن پہلے منصورہ مسجد کے ایک نمازی کیلئے اپنے ایک دوست سے پچاس ہزار کی رقم ادھار لی، وفات سے چند دن پہلے بیماری کیوجہ سے یاد داشت کھو بیٹھے تھے اس دوران جیسے ہی طبعیت بہتر ہونے سے یادداشت بحال ہوئی تو فوراً اپنے دوست کو واپس بلایا اور اسے رقم واپس لوٹائی۔

مستحق عزیز و اقارب کا خیال رکھتے اور بیوہ خواتین کی مدد کرتے تھے۔

اولاد: تین بیٹے۔

علامہ محمد اقبال رح اور  مولانا مودودی رحمہ اللہ علیہ سے عشق تھا 

سید منور حسن رحمہ اللہ اور ابوالشہداء ملک نواز صاحب سے بوجہ للہ عقیدت رکھتے تھے

تاریخ وفات:

31 اکتوبر 2021

سید کی عصری مجالس کی روداد گھر آکر سناتے تھے سید کی تفہیم القرآن اور تقریباً ساری کتب گھر پر موجود تھیں۔ ہماری والدہ مرحومہ نے بھی قرآن پاک کا ترجمہ پڑھا ہوا تھا اور گھر پر بچیوں کو ناظرہ اور ترجمہ قرآن پڑھاتی تھیں۔ ہم نے جب ہوش سنبھالا تو والد و والدہ کو قرآنی مضامین پر مباحث میں مشغول پایا۔

منصورہ مسجد سے دلی لگاو تھا

روزانہ مسجد سے  گھر آ کر بچوں سے مولانا عبدالمالک حفظہ اللہ کے دروس اور قرآن کلاس کے موضوعات پر گفتگو کرتے اور قرآنی معلومات کے سوالات پر انعام دیتے۔

مبالغے کی حد تک دوسروں کا خیال رکھتے تھے

بچوں سے بہت شفقت کرتے تھے۔

اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر کھلانے کا شوق تھا

ہر سال سردیوں میں اپنے بیٹے کے جمعیت کے دوستوں کی اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے ہریسہ اور عید قربان کیبعد بونگ نہاری سے تواضع کرتے تھے۔ 

سب سے بڑے بھائی عبدالغفور مرحوم سے متاثر ہو کر سید مودودی رح کے مرید بنے۔ عبدالغفور مرحوم نے تقسیم سے قبل پٹھانکوٹ میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور تادم مرگ مقامی جماعت کے امیر رہے(قادیانیوں کے مقابلے میں بنایا جانیوالا اسکول بعد میں گورنمنٹ اسلامیہ ڈگری کالج کی حیثیت اختیار کر گیا تایا جان کے بڑے بیٹے جاوید مرحوم اس کے پرنسپل بنے، دوسرے نمبر کے بیٹے عبدالشکور بدو ملہی مقامی جماعت کے امیر اور پوتا ذوالقرنین ضلع نارووال یوتھ کا راہنما اور قادیانیوں کیخلاف تحریک کا روح رواں ہے)

گھریلو زندگی

1969 میں شادی ہوئی۔

انتہائی تابعدار اور نیک بیوی ملی۔ اور مرحوم خود بھی ارشاد نبوی تم میں سے بہتر وہ ہے ۔۔۔۔کی عملی تصویر تھے۔ زندگی بھر خیر کے کاموں میں تعاون پر مرحوم اہلیہ کا ذکرِ خیر کرتے رہے۔ خاندان اور محلے بھر کے بچوں سے بہت محبت سے پیش آتے۔

نمایاں خوبیاں: عقیدہ توحید ، لین دین میں کھرا پن، انسانیت کی خدمت،مستقل مزاجی۔

جمعیت کے نوجوانوں کو جیل میں کھانا پہنچاتے۔ ان سے محبت و الفت سے پیش آتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You cannot copy content of this page