بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

ویب سا ئٹ پر ابھی کام جاری ہے۔

تبصرہ: ڈاکٹر رفیع الدّین ہاشمی

برّ ِعظیم میں علّامہ اقبال کی شہرت اُن کی اُردو شاعری کی وجہ سے ہے لیکن یہ امر مسلّمہ ہے کہ اقبال کا فارسی کلام کیفیت و کمیّت، دونوں اعتبار سے اُن کے اُردو کلام پر حاوی ہے۔

علّامہ اقبال کے زمانے میں، شعر گوئی کی فارسی روایت بمقابلہ اردو، کہیں زیادہ پختہ تھی۔ چنانچہ ۱۹۳۴ء تک، اردو کے ایک مجموعے (بانگِ درا) کے مقابلے میں فارسی میں علّامہ کی چھے کتابیں (اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، پیام ِ مشرق،زبورِ عجم، جاوید نامہ اورمسافر)شائع ہوچکی تھیں۔ ۱۹۳۴ء کے بعد اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر گوئی کا سلسلہ وفات تک جاری رہا مگر اِن پانچ برسوں کی شعر گوئی میں بھی فارسی کلام کا  پلّہ بھاری ہے۔ اشعار کی تعداد سے قطعِ نظر ، فن، اسلوب اور شاعرانہ خوبیوں کی بِنا پر آخری پانچ برسوں کا فارسی کلام ڈاکٹر یوسف حسین خاں کے بقول ”باعثِ فخر“ ہے۔ (حافظ اور اقبال ، ص ۳۵) اہلِ ایران بھی اس بات پر متعجب تھے کہ شبہِ قارہ سے ایسا فارسی گو؟ غلام حسین صالحی علّامی لکھتے ہیں:

                ”زبانِ اصلیِ او پارسی بنودہ تا چہ حددر تعبیرِ معانی و تشبیہات واستعاراتِ لطیف استادی و مہارت از خود نشان دادہ است کہ گوئی زبانِ مادریِ او پارسی است۔“(یک چمنِ گل، ص ۱۳-۱۴(

                حقیقت یہ ہے کہ فارسی شاعری میں اقبال کی آواز منفرد اور ممتاز تھی۔ سادگی و سادہ بیانی کے باوجود اُن کے بے باک انقلابی لہجے ، تخیّل کی رنگینی اور جولانی، فکری اور اسلوبی اِبداعات ، لفظی اور تراکیبی اختراعات، غنائیت اور ڈرامائیت نے شعر اقبال کو، فارسی شاعری کی تاریخ میں ایک ایسا مقام عطا کیا ہے کہ اُنھیں روایتی انداز کے لسانی اور شعری دبستانوں میں سے کسی ایک کے ساتھ مخصوص و منسلک نہیں کر سکتے۔ایران کے معروف عالم اور دانش وَر ڈاکٹر حسینی خطیبی کا خیال ہے کہ:

                ”ایں شاعر سبکے مخصوص بہ خود داشت کہ شاید مناسب باشد، آں را بنام ِشاعر سبکِ اقبال بخوانیم۔“(رومیِ عصر ، ص۱۵۵)

                کسی شاعر کے لیے ایک غیر زبان میں اظہارِ بیان کی ایسی قدرت و مہارت بہم پہنچا لینا کہ اہلِ زبان کو بھی اعتراف کرتے ہی بنے، ایک غیر معمولی بات ہے اور نہ صرف فارسی ادب کی تاریخ بلکہ عالمی ادبیات میں بھی یہ ایک نادر مثال ہے۔(تصانیفِ اقبال کا تحقیقی مطالعہ ، ص۱۰۱)

                کلیاتِ فارسی کی اشاعت بھی اُردو کلیات کے مقابلے میں کم رہی۔ اِس وقت جہاں اُردو کلیات تقریباً درجن بھر ناشرین شائع کر رہے ہیں، فارسی کلیات وحدہٗ لاشریک ناشر شائع کرتا ہے۔ تقریباً ۴۶ برس سے یہی ایک نسخہ درجنوں اغلاط کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ اس صورت ِ حال میں خاصے عرصے سے ایک بہتر اورنسبتاً صحیح تر نسخۂ کلیاتِ فارسی کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔

                اقبال اکادمی پاکستان نے حال ہی میں کلیاتِ اقبال فارسی کا ایک بہتر ایڈیشن شائع کیا ہے۔ اِسے اکادمی کے نائب ناظم (ادبیات) ڈاکٹر طاہر حمید تنولی صاحب نے ایک مشاورتی کمیٹی (ڈاکٹر معین نظامی۔ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ڈاکٹر رفیع الدّین ہاشمی)کی اعانت سے مرتّب کیاہے۔صحتِ متن کے علاوہ، زیرِ نظر نسخے کا ایک امتیاز یہ ہے کہ اسے علّامہ اقبال کے پسندیدہ کاتب عبدالمجید پرویں رقم اور اُن کے فرزند ابنِ پرویں رقم کی خوش نویسی میں شائع کیا گیا ہے۔ اِس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ کمپوز کاری کے سامنے دم توڑتی خوش نویسی، زیرِ نظر کلیات میں محفوظ ہو گئی ہے۔ اِس نسخے کا مطالعہ کرتے ہوئے ، قاری یہ تصوّر کرکے کہ وہ اُسی کتابت میں کلام ِاقبال کا مطالعہ کر رہا ہے جس میں علّامہ نے اپنے فارسی مجموعے شائع کروائےاور وہ بھی اِسی کتابت کا مطالعہ کرتے تھے،ایک خوش گوار احساس سے دوچارہوتا ہے۔

                زیرِ نظر نسخۂ کلیات کو دیگر نسخوں(بشمول خطِ نسخ میں مطبوعہ ایرانی کلیات) کے مقابلے میں برّ ِ عظیم میںبالیقین زیادہ پذیرائی ملے گی کیونکہ ایرانی نسخ کتابت سے ہم لوگ مانوس نہیں ہیں۔ہماری تجویز ہے کہ آئندہ اشاعت میں اِکّادُکّا غلطیوں کی تصحیح کے ساتھ اقبال کے دست نوشت کلام کےچند عکس بھی شامل کر دیے جائیں۔(ناشر: اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔۲۰۱۹ء۔صفحات:۱۳۴۸۔قیمت:۱۴۰۰ روپے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You cannot copy content of this page