۲۲ نومبر ۲۰۲۱ء بروز پیر، ابھی سورج غروب ہونے میں چند منٹ باقی تھے کہ مجھے واٹس ایپ پر اپنے دوست (اور متعدّد کتابوں کی تالیف و تدوین میں راقم کے ساتھ شریک) پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب کا یہ پیغام موصول ہوا:”سیرت نگاری کا درخشاں باب بند ہوگیا۔ ڈاکٹر انور محمود خالد صاحب وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلَّہِ وَاِنَّا اِلَیْہ ِ رَاجِعُوْنَ۔ اردو نثر میں سیرتِ رسول ﷺ اُن کا شاہکار اور شفاعت کی دستاویزتھا، ان شاء اللہ۔“
انور محمود کتنے خوش بخت ہیں کہ بلاشبہہ وہ سکندر کی طرح خالی ہاتھ نہیں ،بلکہ اپنی ”شفاعت کی دستاویز“لے کر رخصت ہوئے۔ خدا کرے اگلی دنیا میں یہ دستاویز اُن کے لیے مختلف مراحل سے بلاروک ٹوک گزرنے کا ”ویزا“ ثابت ہو۔اور باری تعالیٰ کے دربارسے اُمیدِ واثق ہے کہ ایسا ہی ہو گا ،اِن شاءاللہ۔
ستّرکی دہائی میں(سنہ یاد نہیں)مقامی حلقہ اربابِ ذوق نے محفل ہوٹل لائل پور (اب:فیصل آباد) میں خورشید رضوی کے ساتھ ایک شام منانے کا فیصلہ کیا۔ پروفیسر ریاض مجید اور انور محمود خالد، اس تقریب کے مہتمم تھے۔ راقم، خورشید رضو ی اور جناب انور سدید سرگودھاسے چلے۔ بعد عصر تقریب شروع ہوئی۔ خورشید رضوی صاحب کی شخصیت اور شاعری پر مضامین پڑھے گئے اور آخر میں مشاعرہ ۔خالد صاحب سےغائبانہ تعارف تو ۱۹۶۸ءسے تھا، جب وہ نعیم صدیقی صاحب کے سیـارہ میں معاون مدیر کے طور پر کام کرہے تھے۔ (ان کے بعد راقم معاون مدیر مقرر ہوا۔ ) لیکن بالمشافہہ یہ پہلی ملاقات تھی۔غالباً اسی موقعے پراُنھوں نے راقم کو دستخطوں کے ساتھ اپنی شاعری کی پہلی کتاب عہد نامہ پیش کی۔ میں نے اس پر ایک مختصر سا تبصرہ بھی لکھا تھا۔
اس کے بعد بارہا ملاقاتیں ہوئیں۔ کئی بار وہ سرگودھا آئے، اور ڈاکٹر وزیر آغا کے ہاں ، انور سدید، خورشید رضوی، پروفیسر غلام جیلانی اصغر اور سجاد نقوی کے ساتھ اُن سے صحبت رہی۔بالعموم پروفیسر ریاض مجید بھی اُن کے ساتھ ہوتے۔ ڈاکٹر سیـّد معین الرحمان مرحوم،غالباً ۱۹۷۴ء میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لائل پور کے صدر ِشعبۂ اُردوہو کر لائل پور پہنچے۔ خالد صاحب اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ معین صاحب نے اُنھیں توجّہ دلائی کہ پی ایچ ڈی کر لیجیے۔معین صاحب کی بڑی خوبی تھی کہ وہ متعلقین کو اپنی استعداد بڑھانے کی طرف متوجہ کرتے، بلکہ مسلسل اُکساتے۔ ان کی توجہ سےنہ صرف انور محمود خالدبلکہ ریاض مجید، ریاض احمد ریاض،رشید احمد گوریجہ اورافضال احمد انورنےبھی آگے پیچھے پنجاب یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کرلیا۔ انور محمود نےاُردو نثرمیں سیرتِ رسول کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلی۔
میرے استاد ڈاکٹر وحید قریشی مرحوم غالبا اُس زمانے میں اقبال اکادمی کے ناظم تھے۔ اُنھوں نےخالد صاحب سے مقالہ لے کر۱۹۸۹ء میں شائع کردیا۔خالد صاحب کا خیال تھا کہ وہ اِسے اَپ ڈیٹ کریں گے۔ سیرتِ رسول ﷺ ایک سدا بہار موضوع ہے۔ اس پر ہر سال کتابوں کا اضافہ ہوتاتھا، اب بھی ہوتا ہے۔خالد صاحب آخری زمانے تک نئی کتابیں جمع کرتے رہے۔ دوست کہتے رہے کہ جو کچھ لوازمہ میسر آگیا ہے۔ اسی کی مدد سے کتاب کادوسرا حصہ لکھ ڈالیے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار جب راقم کتابیاتِ اقبال کےلیے حوالے جمع کررہا تھا تو لائل پور گیاخالدصاحب سے ملاقات کے لیے، اُن کے گھر پہنچا،اقبالیاتی کتابوں کے حوالے نوٹ کیے۔( اُن دنوں وہ کرائے کے مکا ن میں مقیم تھے۔) راقم نے اس ملاقات میںبھی مشورہ دیا کہ دوسرا حصہ لکھنا شروع کیجیے۔ لیکن پھر وہ تعمیرِ مکان میں مصروف ہوگئے۔ یوں دوسرا حصہ نہ لکھا جا سکا۔
انور محمود خالد اعلیٰ درجے کا علمی و ادبی اور شعری ذوق رکھتے تھےاور منجھے ہوئے قلم کار تھے۔جیسی اُن کی صلاحیت تھی، اس کے مطابق اُنھوں نے تصنیف و تالیف کی طرف خاطر خواہ توجّہ نہیں دی، پھر بھی وقتاً فوقتاً جو کچھ لکھّا، وہ رسائل میں بکھرا ہوا ہے۔ مثلاً الحمرا ہی میں اُن کے حسبِ ذیل مضامین شائع ہوئے:
– علّامہ اقبال بحیثیت نعت گو اپریل ۲۰۰۷ء
۲- تصوراتِ عشق و خرد، اقبال کی نظر میں جون ۲۰۰۹ء
۳- اقبال ، مشاہیرِ کشمیر اور جگن ناتھ آزاد ستمبر ۲۰۰۹ء
۴- فکرِ اقبال اور عصرِ حاضر جولائی ۲۰۱۰ء
۵- بانی پاکستان کے نام، مفکّرِ پاکستان کے خطوط اکتوبر ۲۰۱۵ء
۶- ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کی پہلی برسی پر نومبر ۲۰۱۶ء
۷- غلطی ہائے مضامین مت پوچھ! مئی ۲۰۱۷ء
۸- جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کی دوسری برسی پر نومبر ۲۰۱۷ء
۹- عبدالوہاب خان سلیم مرحوم کی یاد میں جنوری ۲۰۱۸ء
۱۰- علامہ اقبال اور آفتا ب اقبال پر ایک طائرانہ نظر مئی ۲۰۱۹ء
۱۱- ”۔۔۔۔یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟“ اگست ۲۰۱۹ء
۱۲- ماہنامہ الحمرا کا گوشۂ کشمیر اکتوبر ۲۰۱۹ء
۱۳- ”غنچہ لگا پھر کھلنے۔۔“(جگن ناتھ آزادکی کتاب اقبال اور کشمیر کے حوالے سے چند معروضات) نومبر ۲۰۱۹ء
۱۴- ایس اے واحد ، وادیِ لولاب کے انور شاہ کشمیری اور کشمیر کے زندہ دل برہمن زادے
کون؟ (چند تصریحات-ڈاکٹراسلم انصاری کے مضمون کے جواب میں ) فروری ۲۰۲۰ء
۱۵- دو اہم ادبی شخصیات کی رحلت جولائی ۲۰۲۰ء
ایک زمانے میں خالد صاحب نے رسالہ فنون میں علامہ اقبال کی نظموں ”شکوہ“ اور ”جوابِ شکوہ “ پر دو مفصل مضمون شائع کیے تھے۔ان مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کی زیادہ توجہ اقبالیات پررہی۔یقیناً وہ ایک جیـد اقبال شناس بھی تھے۔ اگر اُن کے جملہ مضامین تلاش اور جمع کیے جائیں تو ایک نہایت معقول تحقیقی اور تنقیدی مجموعہ تیار ہوجائے گا۔
جسٹس (ر)ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے نام مشاہیرِ عالم کے خطوں کا ایک اُردو اور ایک انگریزی مجموعہ شائع کیا تھا۔اُردو مجموعہ خطوط بنام جاوید اقبال کے عنوان سے ۲۰۱۱ء میں طبع ہوا۔جاوید صاحب ۲۰۱۵ء میں فوت ہو گئے۔مذکورہ بالا اُردو مجموعے کی اشاعت کے بعد اُنھیں جو خطوط موصول ہوئے، وہ اُنھیں ایک فائل میں محفوظ کرتے گئے۔ خالدصاحب نےالحمرا میںشائع شدہ اپنے ایک مضمون میں اِن خطوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:”ڈاکٹر جاوید اقبال کے ورثا سے گزارش ہے کہ اِن چھے برسوں کے موصولہ خطوط کی فائل ڈھونڈیں اور اُنھیں مرتّب کر کے سپردِ اشاعت کریں۔“۔۔۔۔خالد صاحب خط نویسی میں بڑے مستعد تھے۔بیسیوں اکابرِ ادب سے ان کی خط کتابت رہی۔ اُن کے کاغذات میں بھی اکابرِ ادب کے خطوط محفوظ ہوں گے۔ اُن کے ورثا (خصوصاً ان کے بیٹوں اور ان کی بیٹی سکندرہ)سے میری گزارش ہے کہ وہ خطوط تلاش کرکے اُنھیں مرتب کرکے شائع کرا دیں۔
کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ مہینے، دو مہینے میں ایک بار دوستوں سے ملاقات یا اپنے ذوق کی کسی تقریب میں شرکت کے لیے لاہوآتے اور اپنی لائق بیٹی ڈاکٹر سکندرہ کے ہاں مقیم ہوتے۔(وہ کسی کالج میں صدرِ شعبہ اردو اور بعد ازاں پرنسپل رہیں۔ انھوں نے بھی اورینٹل کالج سے پی ایچ ڈی کیا تھا۔)دورانِ قیام وہ دوستوں سے ملنے ان کے گھر جاتے اور جہاں نہ جاسکتے،ا نھیں فون کرکے معذرت کے ساتھ حاضری کا وعدہ کرتے۔ شاہد علی خان اورڈاکٹر انور سدید کے ہاں تو ضرور ہی جاتے۔ آخری زمانے میںڈاکٹر جاوید اقبال کے ہاں بھی۔ کبھی کبھار راقم کے ہاں بھی آجاتے۔مارچ ۲۰۱۹ء میں انھوںنے بطورِ خاص لاہور کا سفر کیا۔ الحمراکے مدیر جناب شاہد علی خاں نے” مولانا حامد علی خاں ایوارڈ “جاری کیا اور منصفین نے جناب اسلم کمال کو ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا۔شاہد صاحب نے ایوارڈ دینے کی تقریب کا اہتمام ۱۹ مارچ ۲۰۱۹ء کو جِم خانہ لاہور کلب میں کیا۔ یہ ایک یادگار تقریب تھی جس میں لاہور کے منتخب اور معروف اکابرِ ادب موجود تھے۔ا ن سب نے الحمراکے مدیر کی خدمات کو سراہا۔ افسوس ہے کہ اس تقریب کے چند ایک شرکا(سعید احمد خان،قاضی جاوید اورانور محمود خالد)دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ اس تقریب کی رُوداد (از غازی علم الدین )االحمرااپریل ۲۰۱۹ء میں شائع ہوئی۔ غازی صاحب لکھتے ہیں: ”جناب ڈاکٹر انور محمود خالد کی تقریر قدرے طویل تھی جس میں انھوں نے جاری پروگرام کی اہمیت اور پس منظر پر سیر حاصل گفتگو کی۔الحمراکو جاری رکھنے میں شاہد علی خاں کی مساعی کو سراہا۔جناب اسلم کمال کے فکروفن اور الحمرا سے ان کے اٹوٹ تعلق کا ذکر کیا۔یاد رہے کہ ڈاکٹر انور محمود خالد الحمرا کے مستقل قاری اور لکھاری ہیں، نیز” محفلِ احباب “میں اکثر موجود ہوتے ہیں۔ “اسی طرح ایک بار مشفق خواجہ کراچی سے لاہور آئے۔ خالد صاحب اُنھیں ملنے کے لیے لاہورپہنچے۔ ایک شب ڈاکٹر صدیق جاوید نے مشفق خواجہ کے اعزاز میں اپنے گھر میں دعوتِ طعام کا اہتمام کیااور بہت سےقریبی احباب کو بھی مدعو کیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس دعوت میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ،ڈاکٹر تحسین فراقی اور جعفر بلوچ بھی موجود تھے۔(شاید کچھ او ر احباب بھی،نام یاد نہیں رہے۔)
باری تعالیٰ انور محمود خالد کی مغفرت کرے ، امین۔
…………………………….ختم شد……………………