آسمانِ اقبالیات کا ایک اورستارہ ڈوب گی
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
خیابان پشاور کے اقبال نمبر میں ایوب صابر صاحب کا ایک مضمون نظر سے گزرا تھا لیکن بالمشافہہ ملاقات ۱۹۷۷ء کے موسمِ گرما میں جولائی میں ہوئی، تاریخ یاد نہیں ۔
اپریل ۱۹۷۷ء میں اقبالیات پرراقم اور ایوب صابر کے شاگرد، صابر کلوروی کی پہلی کتاب یاد اقبال مکتبہ شاہکار کراچی سے شائع ہوئی،جریدی اشاعت تھی۔صابر کلوروی نے مجھے اپنی کتاب کی تقریبِ رونمائی میں شمولیت کے لیے ایبٹ آباد آنے کی دعوت دی۔میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں لیکچرر تھا۔ ان سے ملاقات نہ تھی۔یہ پہلا رابطہ تھا۔ انھوں نے لکھا کہ آپ مقررہ تاریخ کو ایک بجے تک ایبٹ آباد کے ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں پہنچ جائیں۔تقریب کی صدارت آپ کریں گے۔راقم مقررہ تاریخ اور وقت پر پہنچا تو کونسل ہال کے دروازے پر لگا تالا منہ چڑا رہا تھا۔میں انتظار میں باغ میں گھومنے لگا۔آدھ گھنٹا، ایک گھنٹا ۔صاحب ِ کتاب ،نہ تقریب ۔وہاں موجود کونسل کا ایک کارندہ بھی لاعلم تھا۔آخر عصر کے وقت تقریب سے مایوس ہو گیا ۔کلوروی کا خط نِکالا ،جس میں یہ لکھا تھا : تقریب کے بعد، آپ دیگر مہمانوں کے ساتھ میرے گاؤںکلور چلیں گے اور ولیمے میں شریک ہوں گے۔شب بسری وہیں ہوگی۔میں نے دو ایک لوگوں سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں کلوراڈّےپر پہنچا جا سکتا ہےمگر وہاں سےگاؤں کلور دو تین میل دور ہے۔پیدل جانا پڑتا ہے ۔رات کے وقت سفر مناسب نہیں ہے۔
راقم نے ایک ہوٹل میں شب بسری کے بعد علی الصبح عزمِ سفر باندھا۔ مانسہرہ کی طرف جانے والی بس میں سوار، کلور اڈّے پر اترا اور گاؤں کا رخ کیا ۔خدا بھلا کرے کلور کےایک شخص کا جو مجھے ساتھ لے چلااور صابر صاحب کے گھر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔
صابر !باہر نکلو، مہمان آئے ہیں ۔
صابر نکلے تو انھوں نے مجھے اور میں نے انھیں دیکھا۔ گھر کے اندر لے گئے،والد سے تعارف کرایا، وہ بھی بہت خوش ہوئے ۔پتا چلا رات ولیمے میں آئے ہوئے مہمان ناشتا کرکے جا چکے تھے۔ جانے والوں میں ایوب صابر اور رحیم بخش شاہین شامل تھے۔خود صابر کلوروی سسرال جانے کے لیے تیّار بیٹھے تھے۔بہر حال انھوں نے ناشتا بنوایا ، گفتگو ہونے لگی ۔عذر معذرت کرنے لگے کہ تقریبِ رونمائی کا پروگرام منسوخ ہو گیا تھا اور وقت نہ تھا کہ آپ کو اطلاع دی جاتی۔
خیر ،ناشتا کرکے ہم گھر سے اکٹھے نکلے۔کلور کے اڈّے پر پہنچ کر راقم ایبٹ آباد کی بس میں بیٹھا اور صابر صاحب اپنی بیگم کے ساتھ دوسری سمت میں روانہ ہو گئے۔صابر صاحب نے مجھے ایوب صابر کے مکان کا پتا بخوبی سمجھا دیا تھا۔
جب میں نے ان کے مکان پر دستک دی تو ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ دروازہ کھلا تو نام بتایا۔میری ان سے اور ان کی مجھ سے پہلی ملاقات تھی۔ اتفاق سے مرحوم رحیم بخش شاہین بھی ان کے ہاں موجود تھے۔ یہ پہلی ملاقات تھی۔آخری ملاقات ستمبر ۲۰۲۲ء میںاسلام آباد میں ان کے مکان پر ہوئی۔۴۵ برسوں کی کہانی بہت لمبی ہے، فقط چند جھلکیاں پیش کرنا ممکن ہے۔
اقبال پر ان کے چند مضامین دیکھ چکا تھا۔اسی پہلی ملاقات میں نے انھیں اقبالیات کے بعض موضوعات پر لکھنے پر متوجہ کیا بلکہ اُکسایا۔ کہنے لگے: میں نے دو تین مضامین اور بھی لکھ رکھے ہیں اور کچھ مزید بھی لکھوں گا، کتاب تیار کرنے کا ارادہ ہے۔
راقم نے کہا: مزید ضرور لکھیے اور جو لکھ رکھے ہیں انھیں چھپوا بھی دیجیے۔
بعد ازاں معلوم ہوا کہ پشاور یونی ورسٹی کی متعلمی کے زمانے میں مضمون نویسی کے مقابلوں میں ایک بار اوّل ، دوسری بار دوم انعام جیت کر اپنے استاد اور اقبال شناس پروفیسر محمد طاہر فاروقی سے داد ِتحسین حاصل کر چکے تھے۔یونی ورسٹی آنے سے پہلے ایبٹ آباد کالج میں انھیں ایک بڑے قابل استاد پروفیسر صغیر احمد جان دہلوی سے بھی اکتساب کا موقع ملاتھا۔اس زمانے میں شعر وادب کے لیے کالج کی فضا بہت سازگار تھی۔
ذکر تھاان کے مکان پر پہلی ملاقات کا۔
اس پہلی ملاقات کے بعد کچھ وقفہ آیا۔ راقم کا سرگودھا سے لاہورگورنمنٹ کالج تبادلہ ہو گیا۔پونے دو برس بعد یونی ورسٹی اورینٹل کالج سے بطور لیکچرر شعبۂ اردو سے وابستہ ہوا۔اس زمانے میں راقم تعطیلات میں چند دنوں یا ہفتوں کے لیے ایبٹ آباد چلا جاتا۔ ایوب صابر صاحب سے ملاقات رہتی۔ وہ ایبٹ آباد کالج میں پڑھا رہے تھے۔ملاقات میں قدرتی طور پر اس طرح کی گفتگو ہوتی:
”کیا کر رہے ہیں آج کل؟“
”زیادہ تر مطالعہ۔“
”کچھ لکھ بھی رہے ہیں ؟“
”جی ہاں ۔“
”اقبال کی طرف آئیے۔ساتھ ہی کچھ لکھیے بھی۔“
نتیجہ: ایوب صاحب نے علّامہ اقبال اوپن یو نی ورسٹی کی ایم فل کلاس میں داخلہ لےلیا ۔ ان کے تحقیقی مقالے کا عنوان تھا: اقبال پر بعض معاندانہ کتب کا جائزہ۔ راقم کو اس کے بیرونی ممتحن اور زبانی امتحان لینے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔ ایم فل تو۱۹۸۸ء میں مکمل ہو گیا ۔نظر ثانی کے بعد اسے اقبال دشمنی: ایک مطالعہ کے عنوان سے۱۹۹۳ میں ڈاکٹر جاوید اقبال اور راقم کے دیباچوں کے ساتھ شائع کرادیا۔ صابر کلواری خود تو ڈاکٹریٹ کی منزل سر کر چکے تھے، وہ اپنے استاد ایوب صابر کو بھی مسلسل اکساتے رہتے تھے اور راقم بھی انھیں توجہ دلاتا رہا۔ آخر کار، قدرے توقف کے بعد وہ تیار ہو گئے۔
انھوں نے ۱۹۹۵ء میں ۴ برس قبل از وقت ، ریٹائرمنٹ لےلی ،کیوں؟(اس کا جواب آگے آتا ہے۔) وہ پنجاب یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کےلیے رجسٹریشن کر اچکے تھے اور اب بالکل یکسو ہو کر کام کرنا چاہتے تھے۔ مقالے کےلیے باہمی مشورے سے علّامہ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات :تحقیقی و تنقیدی جائزہکا عنوان طے ہوا ۔ راقم ان کا نگران مقرر ہوا ۔ اس زمانےمیں، جیسا کہ اوپر بتا چکا ہوں، راقم تعطیلات میں کچھ دنوںکےلیے ایبٹ آباد جایا کرتا تھا ۔ایوب صاحب سے ملاقات ہوتی اور تبادلۂ خیال بھی۔ ڈیڑھ دو برس تو وہ صرف کتابوں کی جمع آوری اور مطالعے میں مصروف رہے ۔ میں نے اپنےتجربے کی بنیاد پر انھیں مشورہ دیا کہ وہ لکھنے کاکام بھی شروع کردیں۔انھیں خود بھی یہی احساس ہوا کہ مطالعے کو لمبا کرنے سے لکھنے کا کام مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ انھوں نے لکھنے کا کام شروع کیا۔ راقم کے قیام ایبٹ آباد کے زمانے میں روزانہ ہی مقالے کے موضوع پر ان کے ساتھ ایک آدھ گھنٹے کی نشست ہوتی تھی۔ جو کچھ لکھتے، دکھاتے، راقم اصلاح کرتا، اگلے دن کے لیے بعض نکاتِ مباحث بتاتا۔ تعطیلات کے بعد باقی ایام میںوہ بذریعہ ٹیلی فون یا خط بعض نکات پر مشورہ کر لیتے۔اِدھر ان کے شاگردصابر کلوری صاحب بھی برابر انھیں متوجہ کرتے رہے ۔
محمد ایوب صابر اوائل عمر ہی سے ایک خاص اسلوبِ حیات رکھتے تھے، جس میں علی الصبح اٹھنا، صبح کی سیر، اخبار بینی، ناشتا، کچھ دیر آرام، کالج جا کر درس و تدریس، واپسی پر کھانا، نماز، قیلولہ، عصر کے بعد چائے، شام کے کھانے کے بعد چہل قدمی یا کبھی کبھی ٹیلی وژن بینی اور رات جلد سوجانا۔ بلا شبہہ یہ زندگی کا بہت شاندار اسلوب ہے مگر تحقیق کے اپنے تقاضے ہیں۔ ایوب صابر اپنے معمولات کی قربانی نہیں دے سکتے تھے۔ پی ایچ ڈی اس طرح ہونا مشکل ۔ اسی لیے انھوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور وہ ہمہ وقت مقالے پر کام کرنے لگے۔
مقالہ جمع کروانے کی آخری تاریخ سے ۲دن پہلے، وہ مقالے کی فوٹو کاپیاں لے کرایبٹ آباد میرے پاس اورینٹل کالج پہنچے ۔ اتفاق سے ان دنوں میں صدرِ شعبہ کی ذمہ داری راقم پر تھی۔فوٹو کاپیاں میں نے ،شعبے کے نہایت مستعد نائب قاصد محمد اکرم کے سپرد کیں، وہ دوسرے دن جلدیں بنوا کر لے آیا ۔
اب مقالہ جمع کرانے کا مرحلہ تھا۔ اور یہ قصہ خاصا دل چسپ ہے۔
میں نے اکرم کو ایوب صاحب کے ساتھ نیو کیمپس بھیجاتاکہ مقالہ جمع ہو جائے۔کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے بعد اکرم نے واپس آکر بتایا کہ مقالہ جمع نہیں ہوا کیوں کہ ایوب صاحب کے پاس ایم اے کےسند کی نقل نہیںتھی ۔ایوب صاحب مجھے یہاں کالج پہنچاکر مایوس ہوکر اپنی قیام گاہ پر چلے گئے ہیں۔ میں بہت پریشان ہوا ۔ان کی ساری محنت اکارت ہوتی نظر آئی۔ اچانک مجھے اللہ میاں نے کچھ سجھایا۔میں نے اپنی الماری کھولی اور مجھے ایو ب صاحب کی فائل مل گئی جس میں دیگر کاغذات کے ساتھ ان کے ایم اے کی سند کی نقل بھی موجود تھی۔میں نےرکشامنگوایا اور کہا :جی، او، آر ،وَن چلو ۔وہ جی او آر وَن میں جسٹس نذیر اختر صاحب کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔جی او آر پہنچے تو جسٹس نذیر اخترصاحب کا مکان ڈھونڈنے لگے۔مکان نمبر معلوم نہ تھا ،اس لیے مکان نہیں مل رہا تھا۔ادھر یو نی ورسٹی کا وقت خاتمے کی طرف جا رہا تھا اور میں دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہا تھا ۔اللہ میاں نے میری سُن لی ۔مکان ملا۔اندر سے ایوب صاحب نکلے۔انھیں اپنے ساتھ اسی رکشے میں بٹھایا اور تھیسس ساتھ رکھے ۔رکشا دوڑایا ۔ نیو کیمپس پہنچے ابھی آدھ ، پون گھنٹا باقی تھا۔ تھیسس جمع ہوگیا اور ہم شاداں و فرحاں وہا ں سے نکلے ۔
اب میں نے ایوب صابر صاحب سے کہا : اپنی قیام گاہ پر جانے سے پہلے مجھے منصورہ چھوڑدیجیے۔ منصورہ آتے ہوئے میں نے ان سے بڑےشگفتہ انداز میں کہا: دراصل آپ نےمجھے استاد نہیں مانا لیکن آج تو آپ انکارنہیں کر سکتے ۔
کہنےلگے : نہیں نہیں میں مانتا ہوں۔ (راقم کا تجربہ ہے کہ ادھیڑ عمر کے ریسرچ سکالر،اپنے نگران کی ہدایات کو کھلے دل سے قبول نہیں کرتے اور یہ قدرتی بات ہے۔)
دراصل جو امید وار راقم کی نگرانی میں کام کررہے ہوتے ،ازراہِ احتیاط ان کے کاغذات (موضوع کی منظوری کا خط،بنک چالان کی رسید،میٹرک اور ایم اے کی اسناد وغیرہ )اپنے پاس رکھ لیتا تھا۔حالانکہ جملہ کاغذات مکمّل صورت میں مہیا کرنا امیدواروں کی ذِمہّ داری تھی۔) سبھی اساتذہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ راقم کی یہ عادت ایوب صاحب کے لیے غایت درجہ سود مند ثابت ہوئی اور ان کی ڈگری کو خطرے سے بچا لیا۔
۲۰۰۲ء میں انھیں اقبالیات کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل گئی مگر ڈاکٹریٹ کی تحقیق کے لیے انھوں نے جو موضوع چنا، وہ ابھی تشنۂ تکمیل تھا۔ تحقیق مکمل نہیں ہوئی تھی۔ (نیکیوں کی طرح تحقیق بھی کبھی مکمل نہیں ہوتی۔) سو، انھوں نے اس اثنا میں اپنی تحقیق جاری رکھی۔ انھوں نے پی ایچ ڈی کا مقالہ نظرِ ثانی کے بعد شائع کرا دیا۔ پھر باہمی مشورے سے موضوع کو آگے بڑھایا، مزید کام کیااور جیسا کہ قارئین کو معلوم ہوگا ، اقبال مخالف افراد کی تردید میں ، یکے بعد دیگرے ان کی تصانیف شائع ہوتیں رہیں ۔ اقبال کی زندگی، شخصیت، ان کے فکر وفلسفے اور فن پر ہر چھوٹے بڑے اعتراض کا جواب پروفیسر محمد ایوب صابر کی کتابوں میں مل جائے گا۔ اقبالیات میں دفاعِ اقبال ایک بڑا محاذ ہے جس کے سالار کی حیثیت سے ان کی فتوحات قابلِ داد ہیں، انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان سے استفادہ کیا جاتا رہے گا۔آخر میں انھوں نے اپنی ساری کتابوں پر نظر ثانی کرکے انھیں ۳ جلدوںمیں مربوط کرکے شائع کراد یا اور وہ بجا طور پر محسوس کرتے تھے کہ :
شادم از زندگی ِخویش کہ کار ے کردم
ایوب صابر بڑے نفیس و نستعلیق شخص تھے ۔ ہر کام میں سلیقہ اور باقاعدگی۔ راقم کے ساتھ برادرانہ تعلق رہا ۔بارہا ان کے ہاں مقیم ہوا ۔ خورونوش سے لیکر صبح شام کی سیر تک میں ،اُن کا ساتھ رہتا تھا۔راقم کا مشاہدہ ہے۔ (جیسا کہ اوپر ذکر کر چکا ہوں)اُن کے اسلوبِ حیات میں ہر کام کا وقت مقرر تھا۔ صبح اذانِ فجر کے ساتھ ہی بیدار ہوجاتے ۔ قریبی مسجد میں نماز باجماعت ادا کرتے ۔ دوپہر کا قیلولہ لازمی(جو سفر میں بھی قضا نہ ہوتا تھا۔) رات جلد سو جاتے ۔جس زمانے میں اُوپن یو نی ورسٹی میں صدرِ شعبۂ اقبالیات کے منصب پر فائز تھے،دوپہر کو کھانا گھر سے منگواتے ۔دفترہی میںکھانے کے بعد ایزی چیئر پر اونگھ لینے ، قیلولےکی شرط پوری۔
اگر میں یہ کہوں کہ ایوب صابر سے میرا شخصی تعلق ان کے بہت اسے دوستوں سے زیادہ قدیم اور قریبی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ہم نے کئی بار اکٹھے سفر کیے: مثلاً ایبٹ آباد سے اسلام آباد تک، ایبٹ آباد سے باڑہ گلی تک ، قلندر آباد سے پشاور تک اور بھارت کا سفر۔ برس ہا برس تک میرا معمول رہا کہ ہر سال موسم گرما میں قلندر آباد یا ایبٹ آباد میں کرائے کا مکان لیتا اور تعطیلاتِ گرما کا بیش تر حصّہ وہیں گزارتا۔ کبھی دو اور کبھی تین بچے بھی ساتھ ہوتے۔ ایبٹ آباد کے قیام میں مکان قریب ہوتا تو ایوب صابر صاحب سے روزانہ ملاقات ہو جاتی بلکہ ہم صبح شام سیر بھی اکٹھے کرتے۔ دنیا جہان کی باتیں ہوتیں۔ قلندر آباد میں ہوتا توچند دنوں کے وقفے سے وہ آجاتے یا کبھی میں ایبٹ آباد چلا جاتا۔ ایک موسم گرما میں جب ایبٹ آباد میں تھا تو ہم نے ایبٹ آباد کے مغرب میں ملک پورہ سے آگے واقع سلسلۂ کوہ کی بلند ترین چوٹی تک ہائکنگ کی۔ اس چوٹی سے تربیلا ڈیم صاف نظر آتا ہے۔
اسی طرح ایک بار ہم نے سربن کی چوٹی سر کی۔ اس روز جب ہم، ہسپتال کے نکلے تو ہلکا ترشح شروع ہوگیا تھا، جوں جوں ہم اوپر کی طرف چلتے گئے، بارش کی رفتار بڑھتی گئی مگر چھتری نے ہمیں بھیگنے سے بچا لیاتھا۔ بیٹا زبیر احمد بھی ساتھ تھا۔ سربن چوٹی کے عین اوپر پہنچے تو بارش تھم چکی تھی۔ ہم ایبٹ آباد شہر کی طرف منہ کر کے، ایک پتھر پر بیٹھ گئے۔ سبحان اللہ، کیا نظارا تھا شہر ایبٹ آباد کا۔ یہاں وہاں نشیبی جگہوں میں پانی بھر گیا تھا اور کئی جگہ چھوٹی چھوٹی جھیلیں نظر آرہی تھیں۔ رینگتی ہوئے بسیں ،سوزوکیاں اور کاریں کیسی بھلی لگ رہی تھیں۔
ایک دو ہفتگی سفر ہم نے دہلی کا بھی اکٹھے کیا۔ اس سفر میں برادرم پروفیسر تحسین فراقی بھی ہمارے ساتھ تھے۔ (اس سفر کی کسی قدرتفصیل میں نے اپنے مضمون :”دلّی کے دو سفر“میں دی ہے،جو ہنوز غیر مطبوعہ ہے۔)
راقم نے ان کی فرمائش پر ان کی دو کتابوں پر دیباچے لکھے۔ ایک تو اقبال دشمنی: ایک مطالعہ میں شامل ہے، دوسرا دیباچہ معترضینِ اقبال کا تھا جو انھوں نے کتاب میں شامل نہیں کیا، غالباً ان کے معیار پر پورا نہیں اترا۔ دراصل وہ ایک ایسا جامع اور بھرپور مقدمہ چاہتے تھے جو ان کے سارے کام سے متعلق ہو،البتہ اپنی ایک کتاب پر انھیں میرا تبصرہ پسند آیا اور میں سرخرو رہا۔
ہم دونوں اقبال اکادمی پاکستان کے تا حیات رکن رہے۔دونوں اکادمی کی گورننگ باڈی اور اقبال اوارڈ کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ میں پی ایچ ڈی میں ان کا نگران کا تھا یعنی ان کا استاد۔ مگر دو اوارڈوں کے سلسلے میں شاگرد، استاد سے بازی لے گیا۔ شاگرد (ایوب صابر) کو ”تمغائے حسن کارکردگی“ ملا۔ اور استاد (راقم) کو (کئی سال بعد) ”تمغائے امتیاز“ ۔ اسی طرح علّامہ اقبال صدارتی اوارڈ بھی انھیں پہلے ملا اور مجھے بعد میں۔ شاگرد نے استاد سے کیا سیکھا؟ یا میرے پاس انھیں سکھانے کے لیے کچھ تھا بھی یا نہیں؟ اور انھیں بطور شاگرد یا دوست مجھ سے کچھ حاصل ہوا بھی یا نہیں؟ یہ تو انھیں معلوم ہوگا البتہ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے ان سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش ضرور کی، مثلاً اوقات کا اِنضباط، خصوصاً کھانے اور قیلولے کے اوقات میں باقاعدگی اور ان اوقات کی پابندی۔ اگرچہ میں اس کوشش میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکا اور ایسی پابندیوں کو ان کی طرح اپنے اسلوبِ حیات کا جزو نہیں بناسکا۔ ایک وجہ یہ ہے کہ وہ آرام اور قیلولے کو کسی قیمت پر بھی ہاتھ نہیں دیتےتھے، جب کہ مجھے فرائض کی فکرمندی اور دوستوں کی فرمائشیں ”آرام نہ گیریم“ پر مجبور کرتی ہیں، چنانچہ بسا اوقات قیلولے کی عیاشی سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔ ایسے لمحوں میں ایوب صابر صاحب کو یاد کرتے ہوئے میں ان کی خوش بختی پر رشک کرتا ہوں۔
اس قدر باقاعدہ اور نپے تلے اوقات کے ساتھ زندگی گزارنے والے کو جب بلاوا آیا تو وہ سب کچھ چھوڑ کر اٹھا ، چل دیا۔ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ ۔ ان کی رحلت کی خبر بالکل غیر متوقع اور صدمہ انگیز تھی ۔ باری تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور ان کے درجات کو بلند کرے ، آمین۔
—————————————–