کرتے۔راقم نےاقبال :سوانح و افکار کے نام سےایک کتاب مرتب کی تو یہ کتاب سلیم منصور خالد صاحب کے توسّط سے یو ایم ٹی نے طبع کی۔ سلیم صاحب راوی ہیں کہ جب یہ کتاب حسن کو دی گئی تورمضان المبارک کی ایک رات سحری تک انھوں نےیہ ساری کتاب ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی۔ سلیم صاحب سے ملاقات پر انھوں نے بڑے جذبے اور شوق کے ساتھ پانچ سات منٹ تک اقبال اور کتاب کی افادیت پر بات کرتے ہوئے کہاکہ میں اپنی یونی ورسٹی کے ہر طالب علم پر لازم کروں گا کہ وہ اس کتاب کو خریدے اور پڑھے۔چند روز بعد ایک ملاقات میں ڈاکٹر حسن مراد نے یہ بات خود بھی مجھے بتائی۔ دراصل اُنھیں بچپن ہی سے مطالعے کا ذوق و شوق تھا۔ اقبالیات کے حوالے سے بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ عام طور پر کسی بڑے یا انتظامی عہدے پر موجود شخص کے لیے مطالعہ میں اس طرح کا تسلسل رکھنا مشکل ہوجاتا ہےکہ دیگر مصروفیات اور ترجیحات اور ذمہ داریاں آڑے آنے لگتی ہیں، نتیجتاً وہ کتاب سے آہستہ آہستہ دور ہو جاتا ہے مگر ڈاکٹر حسن مراد صاحب کے ساتھ یہ معاملہ نہ تھا۔ انھوں نے بڑے اہتمام اور شوق سے گھر میں بھی ایک ذاتی لائبریری سے قائم رکھی تھی جس سے وہ فارغ اوقات اور تعطیلات میں استفادہ کرتے تھے۔ یوں ان کی کتاب بینی کا سلسلہ کبھی رکا نہیں۔
وہ اچھا لکھنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ ترجمان القرآن میں بھی لکھتے تھے۔ اگرچہ بہت تھوڑا لکھا لیکن قلم وقرطاس سے اُن کا تعلق کبھی کمزور نہ ہوا۔ تحریری سرگرمیوں کے لیے وہ روز مرہ کی انتظامی مصروفیات یا ضرورتوں کی وجہ سے وہ لکھنے کے لیے زیادہ وقت نہ نکال پاتے تھے۔ تاہم زندگی کے آخری برسوں میں، معلوم ہوا ،کہ وہ اس جانب توجہ بڑھانے کا فیصلہ کیے ہوئے تھے۔ اپنی ریکٹر شپ کی ذمہ داری چھوڑنے کے بعد ان کا عزم تھا کہ اب وہ مکمل یکسوئی کے ساتھ لکھنے لکھانے کا کام کریں گے۔ سلیم منصور خالد صاحب نے تو ان کو یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ اس فرصت سے فائدہ اٹھائیں اور برطانیہ جا کرپانچ سال کےلیے یو کے اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر میں بیٹھ کر تصنیف و تالیف کے لیے گوشہ نشین ہو جائیں مگر:” تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ“ ۔ افسوس کہ اس عزم پرعمل پیراہونے کی نوبت نہ آسکی اور وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔
اللہ نے لکھنے کی غیر معمولی صلاحیت کے ساتھ، ڈاکٹر حسن مراد کو تقریر اور گفتگو کے فن سے بھی خوب نوازا تھا۔ وہ بہترین مقرر تھے۔مجھے کئی بار یو ایم ٹی میں خرم مراد لیکچر سیریز کے مواقع پر ان کی گفتگو سننے کا موقع ملا۔ وہ سُلجھی ہوئی پُر مغز گفتگو کرتے تھے۔ سامعین اُن کی تقریر سے کچھ حاصل کرکے اُٹھتے تھے۔
ایک بار اُن سے یو ایم ٹی کے حوالے سے بات ہو رہی تھی تو میں نے انھیں تجویز دی کہ یو ایم ٹی میں شعبہ ٔاردو بھی قائم ہونا چاہیے کیوں کہ لاہور میں صرف دو جامعات( پنجاب یونی ورسٹی اور گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی)میں شعبہ ہائے اردو قائم ہیں۔ پوسٹ گریجویٹ سطح پر لاہور میں کسی اور ادارے میں اردو پڑھانے کا اہتمام نہیں ہے۔ اگرچہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور اس ناطے طلبہ و طالبات کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے لیکن جامعات میں اس کو ترجیحاً پڑھانے کا اہتمام نہیں ہے۔اس سے نئی نسل اپنی تاریخ اور ادب کے وسیع اثاثے سے محروم ہو رہی ہے۔ نیز یہ کہ نئے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات میں اردو پڑھنے اور لکھنے کا رجحان کمزور تر ہو رہا ہے۔ پھراسی تناظر میں اقبالیات کے موضوع پر بھی بات ہوتی۔ اقبالیات ،شعبۂ اردو کا اہم جزو ہے۔ جہاں بھی اردو میں ماسٹر ڈگری کرائی جاتی ہے، اقبالیات کو ایک با ضابطہ مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حسن مرادنے شعبۂ اردو کی تجویز کو بہت پسند کیا۔ راقم نے سرگودھا یونی ورسٹی کے ڈاکٹر خالد ندیم صاحب کی ڈاکٹر حسن مراد صاحب سے ملاقات بھی کرائی ۔ وہ بھی کچھ عرصےکے لیے سرگودھا یونی ورسٹی سے چھٹی لے کر آنے پر تیار تھے۔ خود راقم کا بھی ارادہ تھا کہ تدریسی عمل میں شامل ہو جاؤں گا۔ لیکن ڈاکٹر حسن صاحب کی مصروفیات آڑے آئیں اور دیگر مسائل کی وجہ سے اس منصوبے کو عملی شکل نہ دی جا سکی۔
ڈاکٹر حسن مراد کو اﷲ نے فکری اعتبار سے گہرے شعور سے اور عملی اعتبار سے بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ اسی سبب وہ آخر وقت تک تحریک ِ اسلامی سے بھی جڑے رہے اور آئی ایل ایم کے نام سے شروع کئے گئے ایک چھوٹے ادارے کو ملک کی ممتاز جامعہ (یو ایم ٹی) تک لانے میں بحسن و خوبی کامیاب ہوئے۔ ایک فرد کے لیے اتنی بڑی کامیابی آسان نہ تھی۔ اس لیے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ایک غیر معمولی شخصیت تھے۔تحریکوں میں اس طرح کے لوگ اگر پانچ فیصد بھی ہو جائیں تو یہ غنیمت ہوتے ہیں،لیکن بدقسمتی سے ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر بھی نظر نہیں آتے۔ آج بھی یہی صورت حال ہے کہ ایسے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک سبب یہ بھی ہے کہ تحریکیں خود بھی اپنی ترجیحات کے معاملے میں اِدھر اُدھر ہوجاتی ہیں، کم از کم ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر حسن صہیب مراد کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی عظمت کے خبط میں مبتلا ہوئے بغیر ایک خوبصورت اور کامیاب زندگی گزار کر اللہ کی جنتوں کے راہی ہوگئے۔ اللہ ان کی جامعہ کو ان کے فکر و عمل کا بہترین نمونہ بنادے۔ وہ اس چیز کو ہی شعوری طور پر اپنی” منزل مراد “سمجھتے تھے۔
آخر میں یہ عرض کروں کہ مرحوم سے جو تعارف ان کےجنازے میں ہوا،وہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا ۔ جنازے میں شرکت سے پہلے مجھے ان کے ہردل عزیز ہونےکا اندازہ نہ تھا۔ان کے جنازے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو شریک دیکھا تو ان کی اس درجہ عظمت اور غیر معمولی شخصیت کا احساس ہوا، حادثے میں انتقال کے بعد اسی شام یو ایم ٹی کے وسیع سبزہ زار میں جنازے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہر مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کا یہ ایک بڑا اجتماع تھا۔ ان کے قدر دانوں میں طلبہ بھی تھے، اساتذہ بھی، علما بھی اور دانشور بھی،حتیٰ کہ آزادخیال لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ یہ سب حسن مراد سے اپنے تعلق کی گواہی دینے آئے تھے۔ معاشرے کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھتے تھے۔سبھی معترف تھے کہ وہ بڑا کنٹری بیوشن کرکے عدم آبادکے راہی ہوگئے۔ معاشرے کی مختلف جہتوں سے اتنی بڑی تعداد کا جنازے میں شریک ہونا اس بات کی گواہی تھی کہ ان کی خدمات کا دائرہ بیت وسیع تھااور ہر شعبۂ زندگی اورہر مکتبۂ فکر کے لوگوں نے ان سے فیض پایا تھا ۔جنازے میں شامل ہونے کےلیے دور دراز سے بھی لوگ آئے تھے اور شہر کے گوشے گوشے سے بھی، یہ سب میرے لیے متاثّرکن بھی تھا اور اس احساس کا باعث بھی کہ ڈاکٹر حسن مراد سے کئی برسوں پر محیط تعلق و تعارف کے باوجود میں اور میری طرح کے کئی افراد ان کی شخصیت کا احاطہ کرنے میں ناکام رہے۔ درحقیقت بہت سارے بڑے لوگوں کی خدمات اور کردار کا اندازہ ان کی زندگی میں کم ہی ہوتا ہے، اوران کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی قدر معلوم ہوتی ہے کہ وہ کیا کیا قابلِ قدر کام کر کے گئے ہیں۔
یہ قدرتی بات ہے کہ جو چیز آدمی کے پاس ہوتی ہے تو اس وقت اسے اس چیز کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا مگر جب وہ چیز اس کے پاس نہیں رہتی تو اس کی کمی اوراہمیت کا احساس ہوتا ہے ڈاکٹر حسن مراد کے حوالے سے ذاتی طور پر میں اسی تجربے سے گزرا ہوں۔ اب سوچتا ہوں کہ یہ تو بڑی گڑبڑ ہوگئی کہ کئی بار اور کئی مواقع پر سوچا کہ ان سے ملنے چلتے ہیں لیکن پھر پروگرام ملتوی کرنا پڑا۔ وہ شخص چلا گیا تو بعد میں بڑا افسوس ہوا کہ غلطی کی، کاش اُن کے پاس چلے جاتے اورمل جاتے مل لیا ہوتا۔ ختم شد