بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

ویب سا ئٹ پر ابھی کام جاری ہے۔

25 جنوری کو ہمارے عہد کے بڑے اقبال شناس ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اقبال کا ایک طالب علم ہی جان سکتا ہے کہ بزمِ اقبال کیسے ندیم سے خالی ہو گئی:
جان کر من جملۂ خاصانِ مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
اقبال کی دنیا میں قیام آسان نہیں۔ یہ ایک جہانِ حیرت ہے۔ ‘اقبالیات‘ محض ایک مضمون نہیں‘ کئی مضامین کا مجموعہ ہے۔ تفسیر‘ علمِ حدیث‘ فقہ‘ کلام‘ فلسفہ‘ ادب‘ تصوف‘ تاریخ‘ سماجی علوم۔ ان سے قابلِ ذکر حد تک آگاہی نہ ہو تو اقبال کو گرفت میں لینا مشکل ہے۔ ہاشمی صاحب نے اقبال فہمی کا بھاری پتھر اٹھایا اور کئی عشروں تک اٹھائے رکھا۔ اقبال کی دعا تھی کہ کبوتر کے تنِ نازک میں شاہین کا جگر پیدا ہو۔ ڈاکٹر ہاشمی کو اور پھر ان کے کام کو دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اقبال کی اس دعا کا جواب ہیں۔
اقبال پر اُن کا آخری کام ‘کتابیاتِ اقبال‘ ہے۔ اس کا آغاز 1977ء میں ہوا۔ گویا صرف یہی ایک کام کم و بیش نصف صدی پر محیط ہے۔ 1732ء صفحات پر پھیلا ہوا یہ ریکارڈ شاید اُن کی زندگی کا سب سے بڑا علمی کارنامہ ہے۔ اس نوعیت کا کام ادارے کرتے ہیں۔ محققین کا ایک طائفہ اس طرز کے منصوبے کے لیے مختص ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مگر اسے تنہا سر انجام دیا۔ انہیں تحقیق کا مزاج دے کر دنیا میں بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے عمر بھر اپنے خالق کا بھرم قائم رکھا۔
علامہ اقبال کے فکر و فن اور زندگی کے مختلف مراحل کا انہوں نے اپنی کتاب ”اقبال: فکر و فن‘‘ میں جس اختصار اور جامعیت کے ساتھ احاطہ کیا ہے‘ اس کی کوئی مثال میری نظر سے نہیں گزری۔ اگر کوئی عامی اقبال کے علمی کمالات‘ فنی عظمت اور مراحلِ حیات کو صحت کے ساتھ جاننا چاہتا ہے اور اسے یہ فرصت نہیں کہ اقبال پر موجود لٹریچر کا احاطہ کر سکے تو اس کیلئے یہ کتاب کفایت کرتی ہے۔ اقبال کے ساتھ‘ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور اُن کی فکر ‘اُن کی دلچسپی کے موضوعات میں شامل تھے۔ اقبال کے علاوہ انہوں نے مولانا کے خطوط کا ایک مجموعہ بھی مرتب کیا ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب سے میرا تعلق دو حوالوں سے تھا۔ ایک حوالہ تو اقبالیات ہے‘ میں جس کا ایک طالب علم ہوں۔ دوسرا حوالہ شخصی ہے‘ اگرچہ اس کی اساس بھی علمی ہے۔ ڈاکٹر صاحب میرے ماموں ڈاکٹر ممتاز احمد مرحوم کے بہت گہرے دوست تھے۔ یہ بات ہمارے درمیان قربت کا باعث بنی۔ ممتاز صاحب کی جن لوگوں سے بہت دوستی تھی‘ ڈاکٹر ہاشمی ان میں سے ایک تھے۔
ممتاز صاحب سے ان کا تعلق پچاس برس سے زیادہ عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دوران اُن کے مابین خط و کتابت بھی ہوتی رہی۔ ان خطوط کی اشاعت کے بارے میں ایک دو مرتبہ ہاشمی صاحب سے بات ہوئی۔ ستمبر 2022ء میں انہوں نے یہ خطوط مجھے بھجوا دیے۔ اُن کی خواہش تھی کہ میں حواشی کے ساتھ ان کی اشاعت کا اہتمام کروں۔ ان مکاتیب کے ساتھ انہوں نے مجھے جو خط بھیجا اس میں لکھا: ”ممتاز احمد مرحوم کے جملہ خطوط بنام راقم ارسالِ خدمت ہیں۔ میں نے ایک بار کمپوز کرائے تھے مگر میرا لیپ ٹاپ چوری ہو گیا۔ اب آپ کو کمپوز کرانے ہوں گے۔ حواشی کی ضرورت ہو گی۔ ان خطوط میں مذکور بہت سی باتیں‘ امور آپ کو معلوم ہوں گے۔ ضرورت ہوئی تو میں بتا دوں گا‘‘۔
ان خطوط میں 1966ء اور 1968ء میں لکھے گئے خطوط بھی شامل ہیں۔ اکثر خطوط میں ہاشمی صاحب کو ‘برادرِ عزیز‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ کہیں ‘پیارے بھائی‘ بھی لکھا ہے۔ ان خطوط میں زیادہ تر ادبی منظر نامے‘ اقبال اور جماعت اسلامی کا تذکرہ ہے۔ ڈاکٹر ہاشمی صاحب کئی برس سرگودھا میں رہے۔ زیادہ تر خطوط اسی دور میں لکھے گئے۔ جو لوگ ممتاز صاحب کو جانتے ہیں‘ انہیں معلوم ہے کہ وہ کیسی ہمہ گیر شخصیت تھے۔ میں نے زندگی میں چند افراد ہی دیکھے ہیں جو مطالعے کی وسعت اور ہمہ گیری میں ان کی مثل ہوں۔ وہ اُردو اور انگریزی میں یکساں مہارت اور قدرتِ کلام کے ساتھ لکھتے اور بولتے تھے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے نام ان کے خطوط میں ان کی اس مہارت اور بزلہ سنجی کے کئی مظاہر موجود ہیں۔ ایک خط کسی دوا خانے کے پیڈ پر لکھا ہے۔ صفحے کے شروع میں ‘نام مریض‘ چھپا ہوا ہے۔ اس کے سامنے ممتاز صاحب نے لکھا: ‘رفیع الدین ہاشمی‘۔ مرض کے سامنے لکھا: ‘ایک چکر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں‘۔ اگلی سطر میں لکھا ہے: ‘ تشخیص و علاج: کراچی کا سفر‘۔ گویا ان کو کراچی آنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔نیچے ‘مرض‘ کی تفصیل میں لکھا ہے: ”اجی حضرت! کہیں تو ٹکیے۔ تدریس سے صحافت تک کا سفر کتنا ہی خوش آئند کیوں نہ ہو‘ مسئلہ ثبات کا ہے۔ مگر آپ بھی شاید اقبال کی طرح ‘تغیر‘ ہی میں ثبات پاتے ہیں۔ خیر اب ‘اُردو ڈائجسٹ‘ میں کتنے دن ٹکیے گا‘ یہ دیکھنا باقی ہے۔ سرگودھا تو خیر آپ کا گھر ہوا‘ بہاولپور اور ملتان جانے کی تقریب کیا تھی؟… (مظفر) بیگ صاحب کا خط جس پر آپ کے Footnotes (حواشی) تھے‘ یہاں بڑی دلچسپی سے پڑھا گیا۔ طے یہ کرنا باقی ہے کہ Text(متن) پر اعتبار کیا جائے یا Footnotesپر؟
فضل من اللہ صاحب نے مجھ سے فرمائش کی ہے کہ (عبدالعزیز) خالد نمبر کیلئے کچھ لکھوں۔ میں نے کہا ہے کہ safe sideپر رہتے ہوئے میں خالد سے متعلق ایک ہی موضوع پر کچھ لکھ سکتا ہوں اور وہ ہے خالد کی ان نظموں کا جائزہ جو اُس نے جہادِ ستمبر کے سلسلے میں کہی تھیں۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اس کے علاوہ لکھنا خود کو کانٹوں پر گھسیٹنے سے کم نہیں۔ فضل من اللہ صاحب سے پہلی مرتبہ یہاں کراچی میں ملاقات ہوئی: ”بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر‘… بیگ صاحب کا اب بھی خط نہ آتا تو ایک شعر ان کی نذر کرتا:
کب تیرے اجتناب نے جی کا زیاں کیا نہیں
”خیر‘ یہ اور بات ہے‘ ہم نے کبھی کہا نہیں‘‘
(قوسین میں رقم الفاظ کالم نگار کی طرف سے ہیں)
یہ خطوط میں سے کوئی انتخاب نہیں ہے۔ یہی سامنے آیا تو میں نے اس کا ایک حصہ نقل کر دیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان خطوط میں کیسی معلومات اور تحریر کے کیسے کیسے شاندار نمونے ہوں گے۔ میں نے سوچا تھا کہ ممتاز صاحب کے ریکارڈ سے اگر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے خطوط مل جاتے تو دونوں ایک ساتھ شائع کرا دیے جاتے۔ میرے نام بھی ممتاز صاحب کے طویل خطوط ہیں۔ ان کے بارے میں بھی خیال تھا کہ انہیں شامل کر کے ممتاز صاحب پر ایک کتاب مرتب کروں۔ اس سے پہلے کہ یہ ممکن ہوتا‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا بلاوا آگیا۔ان کے انتقال کی خبر ملی تو یہ یادیں تازہ ہو گئیں۔ ڈاکٹر صاحب کی رخصتی سے یہ احساس اور گہرا ہو گیا کہ ایک تہذیب کے نمونے اٹھتے جاتے ہیں اور ہمارے پاس ان کا نعم البدل کوئی نہیں۔ ہم نے اس تہذیب کو محفوظ رکھنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا۔ کتنے ہیں جو اس طرح کی زبان لکھتے ہوں گے اور کتنے ہیں جو اسے سمجھتے اور اس سے حظ اٹھاتے ہوں گے؟ اُردو کے بارے میں ہم نے قومی سطح پر جس بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ایک ناقابلِ معافی جرم ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اس تہذیب اور روایت کو زندہ رکھنے کے لیے اپنا خونِ جگر صرف کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبول کرے اور ان کو اپنی مغفرت سے نوازے۔

٭….٭….٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You cannot copy content of this page