(یہ نظم ڈاکٹر خالد ندیم صاحب نے 31 جنوری 2024 کو اقبال اکادمی پاکستان کے زیر اہتمام رفیع الدین ہاشمی مرحوم کے تعزیتی ریفرنس میں پڑھی۔ ڈاکٹر خالد ندیم کے شکریے کے ساتھ پیش کی جارہی ہے۔)
کہاں ہے اب کوزہ گر
جو ہر دن اک نیا کوزہ بناتا تھا
پھر اس کو اپنی سانسوں کی حرارت سے پکاتا تھا
چلیں ڈھونڈیں وہ کوزہ گر
کہ اپنے خشک کوزوں کو نگاہوں کے کئی رنگوں سے یوں رنگین کرتا تھا
کہ سب حیران ہوتے تھے
فقط حیراں نہیں، ان کو پریشانی بھی ہوتی تھی
وہی مٹی، وہی گارا، وہی حدت، وہی روغن
مگر ناکام رہتے تھے
کہ یہ خون جگر تک ان میں شامل کرتا رہتا تھا
تبھی تو اس کے کوزوں میں حرارت زندگانی کی سبھی محسوس کرتے تھے
کہاں ہے اب وہ کوزہ گر
کہاں ہے اب وہ کوزہ گر؟
جو زیب و اختر و قاسم کو راہ نو دکھاتا تھا
کوئی ہارون آتا تو تبسم لے کے جاتا تھا
وہ مجھ ان گھڑ کی خاطر وقت اپنا صرف کرتا تھا
کئی فاروق و آصف اور گلشن اس کے دامن میں
چلے آئے، مگر جاتے ہوئے گوہر کی صورت تھے
کہاں ہے اب وہ کوزہ گر
کہاں ہے اب وہ کوزہ گر؟
کسی گمنام کو لے کر ظفر تخلیق کر دیتا
کوئی ناشاد ہوتا تو اسے شاعر بناتا تھا
عزیز جاں کوئی ہوتا، اسے ساحر سمجھتا تھا
کوئی ایوب مل جاتا، اسے صابر بنا دیتا
ہزارہ میں کلور ان سے اگر صابر ملا دیتا
اسے تدوین کی رہ پر لگا دیتا
مگر خالد ندیم اس بات کو بھی دھیان میں رکھو
وہ کوزہ گر، اسی دوران میں خود بھی تو کوزہ تھا
جو ہر پل دوسروں کی پیاس سے بیتاب رہتا تھا
پلاتا تھا ہر اک کو، تشنہ لب رہنے نہ دیتا تھا
مگر سوچو
کہ اک کوزہ اگر دوجے کو بھرتا ہو
تو خود بھی خالی ہوتا ہے
اگر لبریز ہو، پھر بھی کمی تو آ ہی جاتی ہے
کمی آتی ہی جاتی ہے
خبر ہونے نہیں پاتی
کہ پھر آہستہ آہستہ وہ کوزہ گھلنے لگتا ہے
اور ایسے گھلنے لگتا ہے کہ پھر گھلتا ہی جاتا ہے
مگر چپ چاپ گھلتا ہے
پھر اک دن خاک ہو کر دور نظروں سے
وہ یوں جاتا ہے کہ پھر لوٹ کر آنے کا وعدہ بھی نہیں کرتا
٭….٭….٭