ڈاکٹر حسین احمد پراچہ
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ایک ایسے صاحبِ علم تھے جو ایک عمر میں کئی عمروں کا کارِ عظیم سرانجام دے جاتے ہیں۔
ہاشمی صاحب دیکھنے میں دھان پان تھے مگر کارناموں کے اعتبار سے وہ رستم ہفت خواں تھے۔ اُن کے ساتھ میرا گہرا تعلقِ خاطر پانچ چھ دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ ہمارے لڑکپن کا زمانہ ہاشمی صاحب کی جوانی کا دور تھا۔ تب اُن کے ساتھ قربتِ قلبی ہی نہیں قربتِ مکانی بھی تھی۔ وہ سیٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا کے اے بلاک کی مشہور و معروف عمارت ”دارالرحمت‘‘ میں مقیم تھے۔ یہ عمارت اُن کے چچا حکیم عبدالرحمن ہاشمی نے تعمیر کروائی تھی جو شہر کے ہر دلعزیز حکیم اور دینی شخصیت تھے۔اسی عمارت میں اپنے دور کی معروف علمی و سیاسی شخصیت سیّد اسعد گیلانی بھی فروکش تھے۔ سیّد صاحب کا صاحبزادہ فاروق گیلانی میرا کلاس فیلو تھا۔ اسی عمارت کے بالمقابل اُن دنوں ڈاکٹر خورشید رضوی کی رہائش گاہ بھی تھی۔گویا فطرت نے رفیع الدین ہاشمی جیسے دل کش لالے کی حنا بندی کیلئے انہیں یہ علمی و ادبی اورمعطر ومطاہر فضا مہیا کر دی تھی۔میں سکول کے زمانے سے ہی جب دارالرحمت میں اپنے دوست فاروق گیلانی سے ملنے جاتا تو رفیع الدین ہاشمی صاحب سے بھی علیک سلیک ہو جاتی۔ ہم نے جب کبھی انہیں دیکھا قلم و قرطاس اور کتاب کے ساتھ ہی دیکھا۔ وہ کسی نہ کسی دُھن میں مگن رہا کرتے تھے۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ تم نے کبھی کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے اپنی زندگی کا کوئی لمحہ ضائع نہ کیا ہو تو بے ساختہ میرے لبوں پر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا نام آ جائے گا۔
فی الواقع وہ من المھد الی اللہد کی تصویر تھے۔ وہ ہر وقت پڑھنے لکھنے میں شوق و ذوق کے ساتھ مصروف رہا کرتے تھے۔ یوں تو پروفیسر ہاشمی صاحب نے اکثر اصنافِ ادب پر یادگار کتابیں اور تحریریں نذرِ قارئین کی ہیں مگر اقبالیات پر علمی و ادبی تحقیق اُن کا تخصص تھا۔ ماہرِ اقبالیات کی حیثیت سے اُن کی شہرت چہار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی تھی۔ ہاشمی صاحب اقبالیات پر 72 اور دیگر موضوعات پر 42کتابوں کے مصنف و مؤلف تھے۔ ابھی اوپر میں نے ذکر کیا تھا کہ پروفیسر ہاشمی صاحب زندگی کے آخری سانس تک تحقیق و تصنیف میں مستغرق رہے۔ اُن کی آخری کتاب ”فرنگ میں کوئی دن اور‘‘ کا مسودہ ہاشمی صاحب نے چند روز قبل بسترِ علالت سے اپنے صاحبزادے عمیر ہاشمی کے ہاتھ لاہور ہی میں مقیم استادِ گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کی طرف بھیجا تھا۔ رضوی صاحب نے 24جنوری کو ایک مفصل ”پیش گفتار‘‘ ہاشمی صاحب کی آخری کتاب پر تحریر فرما دیا تھا۔مگر فرشتۂ اجل نے ہاشمی صاحب کو اپنے محب گرامی خورشید رضوی صاحب کی نہایت خوبصورت اور دلچسپ تحریر پڑھنے کا موقع نہ دیا۔ رفیع الدین ہاشمی 25جنوری کو سفرِ آخرت پر روانہ ہو گئے۔
ڈاکٹر خورشید رضوی ہاشمی صاحب کے سفرنامۂ فرنگ کے بارے میں لکھتے ہیں ”ایک اور حیرت جس سے وہ دوچار کرتے ہیں یہ ہے کہ اُن کی ضخیم تصانیف کو دیکھ کر قاری کے ذہن میں اُن کی شخصیت کا جو تصور ابھرتا ہے وہ ایک ژرف بیں محقق کا ہے جسے مطالعے اور علمی و تحقیقی چھان بین سے سر اٹھانے کی فرصت ہی نہیں اور وہ گرد و پیش سے بیگانہ صرف ورق گردانیٔـکتابکادیوانہہے۔یہباتاُنکےقریبیدوستوںکوہیمعلومہےکہوہکرکٹمیںبھیگہریدلچسپیرکھتےہیںاورجہاںبینیوجہاںگردیمیں بھی۔ پہاڑوں کی سیر‘ حسنِ فطرت کے مناظر‘ بادلوں کی دل کشی اور پھولوں کے رنگ انہیں ورڈز ورتھ کی طرح لبھاتے ہیں اور پھر مدتوں تک‘ فرصت کے لمحات میں اُن کی چشمِ باطنی پر جلوہ افروز رہتے ہیں۔ ہاشمی صاحب کا سفرنامۂ برطانیہ ”فرنگ میں کوئی دن اور…‘‘ آپ کے سامنے ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ عنوان علامہ اقبال کے شعر سے ماخوذ ہے ؎
فرنگ میں کوئی دن اور بھی ٹھہر جاؤں
مرے جنوں کو سنبھالے اگر یہ بھی ویرانہ
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اقبالیات پر بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیر و سیاحت کیلئے پندرہ ممالک کا سفر کیا تھا۔ ان ممالک میں سپین‘ ترکی‘ بھارت‘ جاپان‘ فرانس‘ برطانیہ اور سعودی عرب نمایاں تھے۔قرطبہ میں انٹرنیشنل اقبال کانفرنس 21تا 24 نومبر 1991ء کو منعقد ہوئی تھی۔ میں اُن دنوں طائف میں مقیم تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے سعودی عرب آنے کی اطلاع دی تو ہم نے مکۃ المکرمہ میں اُن کا خیر مقدم کیا اور حرم مکی کے قریب ایک ریستوران میں مختصر تقریب کا اہتمام بھی کیا تھا۔ ڈاکٹر ہاشمی صاحب کے ساتھ معروف اقبال شناس پروفیسر محمد منور مرزا اور محمد سہیل عمر بھی کانفرنس میں مدعو تھے۔ میرے دل میں ”اندلس‘‘ کی سیاحت کا شوق تو موجود تھا مگر ان محبّانِ اقبال کی گفتگو نے اس شوق کیلئے مہمیز کا کام کیا‘ لہٰذا مکۃ المکرمہ کی اس یادگار ملاقات کے کئی سال بعد میں اپنی زندگی کی ہمسفر کے ہمراہ جرمنی سے بذریعہ کار سپین گیا۔ اقبال کی پیروی میں ہم نے نہایت شوق و ذوق کے ساتھ مسجدِ قرطبہ کی زیارت کی تھی اور وہاں نوافل بھی ادا کئے تھے۔ قرطبہ سے غرناطہ تک کا زیتون کے درختوں کی خوشبو سے بسے ہوئے پہاڑی راستے کا سفر یادگار ہے۔
ڈاکٹر ہاشمی صاحب کی زندگی کے کئی تحقیقی کارنامے ایسے بھی ہیں جو شاید بہت سے لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہوں گے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کے پرانے دوست ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی 1970ء کی دہائی میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں اُن کے رفیق کار بھی تھے۔ خورشید رضوی صاحب نے اُس زمانے کا ایک نہایت انسپائرنگ واقعہ سنایا۔ آج کے حالات میں یہ واقعہ ناقابلِ یقین لگتا ہے۔ کالج کی تاریخ مرتب کرنے کا کام ان دونوں حضرات کے ذمے لگا ۔اس کام کیلئے دونوں صاحبان نے سرگودھا‘ شاہ پور اور لاہور میں کالج کے کئی پرانے طلبہ اور پروفیسروں سے کئی ملاقاتیں کیں اورنہایت عرق ریزی کے ساتھ یہ تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ شدید موسم میں ڈاکٹر خورشید رضوی اور پروفیسر ہاشمی سائیکلوں‘ بسوں اور تانگوں میں سفر کرتے تھے اور ڈھابوں سے کھانا کھاتے تھے۔ یہ سب کام علم و ادب کے ان متوالوں نے بصد خوشی انجام دیا تھا اور کالج انتظامیہ سے کسی طرح کے سفر خرچ کا کوئی مطالبہ نہیں کیاتھا۔ وہی گورنمنٹ کالج سرگودھا آج کی یونیورسٹی آف سرگودھا بن گئی ہے۔ اس جامعہ میں 30ہزار طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔
علامہ اقبالؒ کے علاوہ سیّد مودودی بھی ہاشمی صاحب کے مرشد تھے۔ وہ مولانا کی عصری مجالس 5اے ذیلدار پارک میں نہایت عقیدت سے حاضر ہوتے تھے۔ انہوں نے ان مجالس میں ہونے والے سوالات و جوابات کو بھی کتابی شکل میں ”5 اے ذیلدار پارک‘‘ کے عنوان سے ترتیب دیا تھا۔ اس کے علاوہ ہاشمی صاحب نے سیّد اسعد گیلانی اور جناب لالہ صحرائی کے یادنامے بھی نہایت شوق و ذوق سے مرتب کئے تھے۔ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نہایت شفیق استاد اور مہربان دوست تھے۔ اُن کے شاگردانِ خاص ڈاکٹر خالد ندیم‘ ڈاکٹر سکندر میکن اور ممتاز اینکرسہیل وڑائچ اپنے استاد کے فیضانِ نظر کا نہایت عقیدت سے تذکرہ کرتے ہیں۔ایک بار مولانا مودودیؒ سے کسی نے پوچھا تھا کہ مولانا! تصنیف و تالیف تو آپ کا دلی شوق ہے۔ جنت میں اس کام کے بغیر آپ کا دل کیسے لگے گا۔ مولانا نے جواباً مسکراتے ہوئے فرمایا تھا کہ وہاں ہر شخص کے ذوق کی تسکین کا سامان میسر ہوگا۔
اللہ ہاشمی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات عطا فرمائے‘ آمین! ہمیں یقین ہے کہ جنت کے دیگر سامانِ راحت کے علاوہ ہاشمی صاحب کو وہاں قلم و قرطاس اور کتب بھی مہیا کی جائیں گی۔
٭….٭….٭