(تحریر: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی )
فاروقی صاحب سے پہلی ملاقات حیدر آباد دکن کے اقبال سیمی نار(19۔20،اپریل 1986ء) میں ہوئی ۔ سیمی نار میں ان سے گفتگو کرنے اور ان کی باتیں اور تقریریں سننے کا موقع ملا۔ دوسرے روز وہ حیدر آباد سے واپس جانا چاہتے تھے لیکن راقم کا مضمون سننے کے لیے کچھ دیر رکے رہے ۔جونہی مضمون ختم ہوا، وہ اٹھ کر چل دیے۔آئندہ برسوں میں فاروقی صاحب سے دو تین خطوں کا تبادلہ ہوا۔
2004ء میں وہ اقبال اکادمی پاکستان کی دعوت پر پاکستان آئے۔ اس دورے میں انھوں نے How to read Iqbal کے موضوع پر اکادمی میں ایک مفصّل لیکچردیا ۔ لاہور میں ان کے اعزاز میں متعددّ تقریبات منعقد ہوئیں۔ایک تقریب کا اہتمام ڈاکٹر تحسین فراقی صدر شعبۂ اردو نے سینٹ ہال پنجاب یونی ورسٹی میں کیا ۔ایک اور تقریب گورنمٹ کالج یونی ورسٹی میں منعقد ہوئی۔
فاروقی صاحب اردو اور انگریزی کے بہترین مقرر تھے۔راقم کو متعدد بار ان کی اردو اور انگریزی تقریریں سننے کا موقع ملا۔ اردو تو ان کی مادری زبان تھی۔اوائل عمر ہی سے انھیں انگریزی پر بھی دسترس حاصل تھی۔کراچی کے ظہیر خان جمنا کرسچین کالج الٰہ آباد میں فاروقی صاحب کے کالج فیلو تھے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ 1965ء میں فاروقی صاحب کو اپنے مادرِ علمی میں کسی جلسے میں بطورِ مہمان خصوصی بلایا گیا۔سفید شیر وانی اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس تھے۔ لگ رہاتھا کوئی شاعر ہیں مگر انھوں نے انگریزی میں ایک دھواں دھار تقریر کی تو سارے طالب علم ششدررہ گئے کہ شیروانی پہن کر بھی اتنی اچھی انگریزی بولی جا سکتی ہے ۔
ذکر تھا ان کے 2004 ء کے دورۂ پاکستان کا ۔
نوائے وقت نے ان سے ایک خصوصی مکالمے کا اہتمام کیا۔ عمران نقوی میزبان تھے اور پینل میں عزیز ابن الحسن ،ضیاء الحسن اور جعفر بلوچ کے ساتھ راقم بھی شامل تھا۔بھارت میں اُن کے مصاحبوں پر مشتمل کتاب فاروقی محوِ گفتگو شائع ہوئی تھی ،معلوم نہیں اس میں یہ انٹرویو شامل ہے یا نہیں؟
2007ء یا 2008ء میں وہ فیض سیمی نار میں شرکت کے لیے لاہور آئے۔ لمز میں قیام پذیر ہوئے۔ انھوں نے سیمی نار میں کلام فیض کی ہمہ نوع خامیوں اور کمزوریوں کی نشان دہی کی۔ ترقی پسندوں کو صدمہ ہوا۔ زاہدہ حنا کو زیادہ ہی رنج ہوا۔فراقی صاحب بتاتے ہیں کہ وہ رونے لگیں ۔فاروقی صاحب نے کہا: میں تو عرصے سے اس طرح کی باتیں کرتا چلا آ رہا ہوں۔ یہ علمی معاملہ ہے۔ اس میں ذاتیات کا دخل نہیں۔
2010ء میں وہ لاہور آئے۔ قیام لمز ہی میں تھا۔نوائے وقت میگزین کے انچارج صاحب(نام بھول گیا) اُن سے انٹرویو لینا چاہتے تھے۔فاروقی صاحب اُن سے واقف نہ تھے۔انچارج صاحب نے مجھے ذریعہ بنایا۔ میں نے فاروقی صاحب سے وقت لیااور اُنھیں لے کر پمز پہنچا۔کہنے لگے: صرف15، 25 منٹ۔۔۔ خیر ، سوال جواب ہونے لگے۔ تقریباً پون گھنٹا انٹرویو ہوتا رہا۔ نوائے وقت میگزین میں چھپا۔ افسوس ہے اس کی نقل محفوظ نہ رہ سکی۔ 2010ء میں راقم نے اُنھیں حسبِ ذیل کتابیں بھیجیں:
۱۔ مکاتیب مشفق خواجہ بنام رفیع الدین ہاشمی
۲۔ مکاتیب رشید حسن خاں بنام رفیع الدین ہاشمی(مرتب :ڈاکٹر ارشد محمودناشاد)
۳۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی بحیثیت نثر نگار (محمد اصغر جاوید)
جواباً انھوں نے 7 جون کے خط میں حسبِ ذیل تبصرہ کیا:
’’مشفق خواجہ اور رشید حسن خاں کے خطوط میں نے سب پڑھ ڈالے۔ آپ کے حاشیے نہایت عمدہ ہیں۔ ارشد محمود صاحب نے اتنے اچھے حاشیے نہیں لکھے۔ خیر۔ مولانا مودودی پر کتاب اِدھر اُدھر سے دیکھی۔ سوانحی حصّہ زیادہ توجّہ سے پڑھا۔ کام بہت بڑا اور قابلِ قدر ہےلیکن اب مجھے مولانا کے افکار سے دلچسپی نہیں رہ گئی۔ کبھی دلچسپی تھی اس وقت یہ کتاب ملتی تو حرزِ جاں بنا لیتا۔ مجھے ان کی کتابوں میں خلافت و ملوکیت سب سے زیادہ قابلِ قدر اور اہم معلوم ہوتی ہے۔ لیکن میں مولانا کے میدان یعنی اسلامیات اور اسلام بطور تحریکِ حیات ، میں دخل در معقولات دینے کا استحقاق نہیں رکھتا۔
مشفق خواجہ کے خطوط دلچسپ ہیں اور آپ کے حواشی نے انھیں یادگار بنا دیا ہے۔ مشفق خواجہ اور آپ دونوں کے علم کی وُسعت اور تجربے سے واقف تھا، لیکن ان مکتوبات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ان کی شخصیت میں علم اور ذوقِ علم کے سوا کچھ تھا ہی نہیں۔ رشید حسن خاں کے مکاتیب زیادہ تیکھے اور زیادہ ذاتی ہیں۔ ان کی شخصیت اور علمیت دونوں ہر جگہ عیاں ہیں۔
مشفق خواجہ کے خطوط پر آپ کے حاشیے میرے لیےیوں بھی بہت کارآمد نکلے کہ آپ نے ان لوگوں کی تاریخِ ولادت اور وفات درج کرنے کا اہتمام کیا جن کے نام ان خطوط میں وارد ہوئے ہیں۔ یہ کام اردو والے تو تقریباً بالکل نہیں کرتے۔ غیر زبانوں میں بھی اتنا اہتمام کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ میں ایک تاریخ نامہ Date List مرتب کرتا رہتا ہوں ، نہایت سادہ، صرف تاریخِ ولادت اور موت، اور تعارف میں صرف ایک لفظ ۔ کئی نام میں نے اپنی فہرست میں آپ کے حواشی سے لے کر اضافہ کیے۔ لیکن بعض ناموں کے سلسلے میں الجھن بھی ہوئی کیونکہ آپ کی درج کردہ تاریخوں اور میری درج کردہ تاریخوں میں تفاوت نظر آیا۔‘‘ فاروقی صاحب نے جو گوشوارہ بھیجا تھا ۔راقم نے، اس کی روشنی میں تاریخیں درست کر لیں۔
ڈاکٹر کبیر احمد جائسی (16 نومبر 1934ء- 7جنوری 2013ء)اردو اور فارسی کے عالم اور سکالر تھے۔ جناب شمس الرحمن فاروقی کو جائسی سے خصوصی تعلق ِخاطر تھا۔ اس کا اندازہ جائسی کے نام ان کے خطوں کے مجموعے (شمس کبیر۔القرطاس کراچی، 2004ء) سے ہوتا ہے ۔مجھے ان کی وفات کی خبر ڈاکٹر نگارسجاد ظہیر صاحبہ نے دی۔ جائسی مرحوم ،نگار صاحبہ کے ماموں تھے۔ میں نے فون پر نگار صاحبہ سے تعزیت کی اور دوسرے دن فاروقی صاحب کو بھی برقی ڈاک سے تعزیتی خط روانہ کیا۔ اسی روز ان کا حسب ذیل جواب موصول ہوا:
Dear Brother Rafiuddin Hashmi, Yes, It was a great shock. The New Year has not begun well for us who lost numerous major writers in 2012. Yes, I knew Kabir since he was young boy, strugling to make a name. He was very brilliant even then, and wrote a short book on Fani when he was v. young. I never taught him, but he regarded me as “ustad” because of our numerous discussions about poetry and literature. He lived a life of great austerity and denial, devoted to Persian and Urdu literature. May God rest his soul in the highest place in paradise. Yours, with best regards, SRF., Jan. 9, 2013.
فاروقی صاحب نے اردو کے مصنّفین کی ایک فہرست بہ عنوان Urdu Authors تیار کی تھی اور بذریعہ برقی ڈاک راقم کو بھی ارسال کی ۔اس میں 28,25 مصنّفین کے نام، ان کی معروف حیثیت (شاعر، سکالر، براڈ کاسٹر، مؤرّخ، مترجم، ناول نگار، نقّاد وغیرہ)کی وضاحت کے ساتھ درج ہیں۔ جواہل قلم16 جون2011ء تک حیات تھے، ان کی تاریخِ ولادت اور جو گزر گئے، ان کی ولادت ووفات کے سنین درج ہیں۔اندراجات کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
Abad Shahpuri ,Poet,Magazine editor 1923-2003٭
Abbasi,Qazi Muhammad Adeel,Journalist, Freedom Fighter, Urdu ٭ Activist 1898-1980
Abdul Aziz, Shah, Islamicist, Sufi 1746-1823٭
Maudoodi,Abul Aala,Islamiscist 1903-1979٭
قابلِ ذکر یہ ہے کہ اس فہرست میں خود فاروقی صاحب کا اپنا نام شامل نہیں ہے۔ راقم کو انھوں Scholar اور Iqbal Expert کےالقاب عنایت کیے۔
2015ء یا2016ء میں وہ ایک بار پھر لاہور تشریف لائے۔ لمز میں مقیم ہوئے۔ اردو داستانوں پر انھوں نے ایک مفصل لیکچر دیا۔ بھارت سے دو تین نوجوان داستان گوبھی ساتھ لائے تھے جنھوں نے دم توڑتی داستان گوئی کی روایت میں ،ا کلاسیکی داستانوں کے چند ٹکڑےایسے انداز میں سنائے کہ سماں باندھ دیا، اور سامعین وحاضرین نے ان پر ’’ویلیں‘‘ نچھاور کیں۔ فاروقی صاحب نے خود بھی کسی داستان کاایک ٹکڑا سنایا۔
اس دورے میں ان کے ساتھ ایک نشست فراقی صاحب نے مجلسِ ترقی ادب کے دفتر میں منعقد کی۔ اگلے دن وہ معروف شاعر ظفر اقبال سے ملنے گئے۔
راقم نے اِکّا دکّا مراسلوں کے سوا، شب خون میں کبھی کچھ نہیں لکھا، بہ ایں ہمہ فاروقی صاحب از راہِ عنایت سہیل عمر کے توسّط سے رسالہ بھجواتے رہے۔
زبان وبیان کے معاملے میںوہ مخصوص نقطۂ نظر رکھتے تھے، مثلاً: لغاتِ روز مرّہ میں لکھتے ہیں:’’رہائش اور ’’رہائش گاہ‘‘ غلط تو ہیں ہی ،بھونڈے بھی ہیں اور ان سے کوئی مقصد ایسا نہیں حاصل ہوتا جو گھر،مقام گاہ،قیام،مستقر، جائے قیام،دولت کدہ وغیرہ(ان معنی کو ادا کرنے کے لیے الفاظ ہمارے کثرت سے ہیں)سے نہ حاصل ہو سکتا ہو‘‘ ۔
لغاتِ روزمرّہ ۲۰۱۱ء میں (ص203) ہماری زبان دہلی میں ایک بار’’ استفادہ حاصل کرنا‘‘کی بحث چلی۔زیادہ زیادہ تر اہل قلم ’’استفادہ حاصل کرنا ‘‘کو غلط قرار دیتے ہیں۔ فاروقی صاحب نے بھی حصہ لیا، اور حالی اور اقبال کی تحریروں کے حوالے دے کر قرار دیا کہ ’’استفادہ حاصل کرنا ‘‘غلط نہیں ہے۔اسی طرح وہ رشید حسن خاں کے ’’اش اَش‘‘سے بھی اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں ’’عش عش ‘‘صحیح ہے۔ (لغاتِ روز مرّہ ،ص68۔69)مرے ہوئے لوگوں (خصوصاًمسلمانوں کے لیے)مرحوم اور غیر مسلموں اور ہندوئوں کے لیے آں جہانی بولتے ہیں۔ فاروقی صاحب کے خیال میں غیر مسلموں کے لیے بھی مرحوم بولنے میں مضائقہ نہیں۔ لکھتے ہیں:’’یہ بات اخلاق کے خلاف معلوم ہوتی ہے کہ ہم بنی آدم کے ایک بڑے طبقے کو اپنی دعاسے محروم رکھیں۔ یہ االلہ کی صفتِ رحمانی اور ارحم الراحمینی کا بھی تقاضا ہے کہ ہم امّید رکھیں کہ اپنی اپنی جگہ سب پر مہربانی ہو گی ‘‘۔راقم نے فاروقی صاحب کو مطلع کیا کہ علامہ قبال نے بھی غیر مسلموں کو ’’مرحوم‘‘بھی لکھا ہے۔ اس اطلاع کے لیے فاروقی صاحب نے راقم کا شکریہ ادا کیا۔ (لغاتِ روز مرّہ ،ص49)۔
اردو زبان کے سلسلے میں وہ بہت حسّاس تھے۔ ایک زمانے میں بھارت میں اردو رسم الخط کو ہندی (دیوناگری)میں بدلنے کا شوشہ چھوڑا گیا۔ بعض اردو مصنّفین (مثلاً:عصمت چغتائی)نے بھی اس کی تائید کی مگر فاروقی صاحب نے شدّ ومد سے، بہ دلائل اس کی مخالفت کی۔نتیجہ یہ کہ یہ شوشہ آہستہ آہستہ دب گیا ،ختم ہو گیا__ ڈاکٹر گیان چند کا شمار اردو کے نام وَر محققوں اور نقّاد وں میں ہوتا ہے، آخری زمانے میں انھوں نے ایک بھاشا ، دو لکھاوٹ کے عنوان سے اردو کے خلاف ایک زہریلی کتاب شائع کی جس سےاردو زبان وادب اور مسلمانوں سے گیان چند کے چھُپے تعصّب اور بُغض وعناد کا اندازہ ہوتا ہے ۔بہت سے اردو دوستوں نے بھی اس کا جواب لکّھا۔سب سے پہلے اس کا رد اور تجزیہ فاروقی صاحب نے پیش کیا اور گیان چند کے ’’دلائل ‘‘ کا تاروپَو بکھیر کر رکھ دیا۔بعد ازاں علی گڑھ کے ڈاکٹرمرزا خلیل بیگ نے ایک بھاشا ،جو مسترد کردی گئی کے نام سے پوری ایک کتاب مرتب کر ڈالی۔ غالباً اس میں فاروقی صاحب کا مضمون بھی شامل ہے۔
فاروقی صاحب نے تنقید ،تحقیق ،افسانہ ،ناول کی اصناف میں ایسی یاد گار کتابیں اور تحریریں چھوڑی ہیں جو برسوں تک ان کی یاد دلاتی رہے گی۔