اردو زبان و ادب کا کوئی طالب علم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے نام اور کارناموں سے بے خبر نہیں۔ اقبالیات پر جتنا کام تنہا اس عالمِ بے بدل نے کیا، اقبالیات کی پوری تاریخ اس کی مثال نہیں دے سکتی۔ فکرِ اقبال کے فروغ کے لیے انھوں نے زندگی وقف کر رکھی تھی۔ ان کی پہلی باقاعدہ تصنیف ’اقبال کی طویل نظمیں‘ اور آخری ’کتابیاتِ اقبال‘ تھی۔ گویا وہ زندگی بھر فکرِ اقبال کے فروغ میں کوشاں رہے۔ تحقیق، تدوین، تنقید، ترجمہ، ترتیب، سفرنامہ، خاکہ نگاری، افسانہ نویسی، کتنے ہی شعبہ ہاے ادب ان سے فیض یاب ہوئے۔ اگرچہ ان کی تصانیف و تالیفات کے موضوعات میں خاصا تنوع ہے، لیکن ان کی توجہ زیادہ تر علامہ اقبال پر مرکوز رہی۔ یہ بھی ہے کہ ان کی تمام تحریروں میں مسلم تہذیبی روایات کے فروغ اور صالح کردار کی تعمیر کی کوشش ملتی ہے۔ وہ صحیح معنوں میں اسلامی ادب کے علمبردار تھے۔
مَیں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا کلاس روم شاگرد نہیں ہُوں، وہ پی ایچ ڈی میں میرے نگران تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مَیں نے ایم اے تک جو کچھ سیکھا ، وہ ایک طرف اور ڈاکٹر صاحب کا فیض ایک طرف۔ مَیں معترف ہُوں کہ میرے قلم کو انھیں کی وجہ سے تخلیقِ لفظ کا شعور مِلا اور میری تصانیف کے پیچھے انھیں کی تربیت کارفرما رہی۔ زمانۂ طالب علمی میں ’اقبال کی طویل نظمیں‘، ’خطوطِ اقبال‘ اور ’اقبال بحیثیت شاعر‘ جیسی وقیع کتابیں مطالعہ میں آئیں تو میرے لیے گویا ’دبستاں کھل گیا‘ اور پھر فکرِ اقبال کو سمجھنےکے لیے قلب و ذہن تیار ہو گئے۔
پی ایچ ڈی کے لیے مجھے ترقی پسند تحریک کے فکری بانی ڈاکٹر اختر حسین راے پوری کی شخصیت اور فکر و فن پر کام کا موقع ملا، لیکن نگرانی کی ذمہ داری ڈاکٹر صاحب پر عائد ہوئی۔ یار لوگوں نے بہت سمجھایا کہ بھائی! ڈاکٹر صاحب کی نگرانی میں راے پوری جیسی شخصیت پر کام کرنا سہل نہیں رہے گا، جگہ جگہ ان کی مداخلت ہو گی اور آپ پریشان ہو جائیں گے؛ لیکن انھوں نے دَورانِ تحقیق ایک موقع پر بھی فکری مداخلت نہ کی، بلکہ مقالے کو دیکھ کر نہایت خوش ہوئے اور فوراً دستخط ثبت کر دیے۔
وہ اپنے شاگردوں کی تربیت نہایت خاموشی سے کرتے کہ خود ان کے شاگردوں کو بھی معلوم نہ ہو پاتا۔ وہ اپنی تصانیف و تالیفات پروف خوانی یا اشاریہ سازی کے لیے دے دیتے۔ ممکن ہے، بعض شاگرد اسے ’خدمت ‘ یا ’بار‘ سمجھتے ہوں، لیکن حقیقتاً اس طریقے سے وہ انھیں تصنیف و تالیف کی سوجھ بوجھ عطا کر رہے ہوتے تھے۔ بارہا رات گئے فون کرتے اور کسی کتاب کا حوالہ، کسی کا صفحہ یا کسی شعر کا پوچھ لیتے، لیکن مجھے معلوم تھا کہ مجھے چوکس رکھنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔ وہ شاگردوں کو اعتماد دینے کے لیے اپنی تحریروں پر ان کا نقطہ نظر معلوم کرتے تھے اور جہاں کہیں انھیں محسوس ہوتا کہ ’حقِ شاگردی‘ ادا کیا جا رہا ہے، بعض تسامحات کی طرف خود اشارہ کر دیتے۔ اپنی تحریروں کو تبصرہ کے لیے دیتے، لیکن کبھی اپنی راے کا اظہار نہ کرتے۔راقم نے ان کی پانچ چھ کتب کا تجزیہ کیا اور ان میں سے بعض مقامات کی نشاندہی بھی کی، جسے ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف سراہا، بلکہ آئندہ اشاعتوں میں اسے پیشِ نظر بھی رکھا۔ کوئی شاگرد کسی کتاب میں معاونت کرتا تو دیباچے میں، بلکہ متعدد کتب میں ابتدائی صفحات پر جلی انداز میں اس کا اعتراف کرتے۔یہ کام ظرف کے بغیر ممکن نہیں، ورنہ ہمارے ہاں کتنے ہی مصنفین ہیں، جو خوردوں کے اعتراف سے پہلو تہی کرتے رہے ہیں۔
بعض لوگ ڈاکٹر صاحب کو مردم بیزار سمجھتے تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھیں وقت ضائع کرنا گوارا نہ تھا، البتہ علم و عرفان کے متلاشیوں کے لیے ان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ کوئی فون آ جاتا تو ضرور سنتے۔ اگر کسی مصروفیت کی وجہ سے نہ سن سکے تو فرصت پاتے ہی رابطہ کرتے۔ اپنے دوستوں سے طویل گفتگو سے بھی وہ تنگ نہیں آتے تھے۔ اپنے اسکالر کے ساتھ رابطہ رکھتے، بلکہ بعض کے ساتھ تو رابطوں میں پہل کرنے میں بھی انھیں عار نہ تھی۔ شاگردوں کے فون سننا اور ان کی رہنمائی کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے اپنے شاگردوں کے شاگردوں کو بھی کبھی مایوس نہیں کیا۔
وقت کی قدر و قیمت کو ان سے بہتر شاید ہی کوئی سمجھ سکا ہو۔ ان کے خیال میں ایک منٹ کا مصرف بھی ہوتا ہے اور پورے دن کا بھی، چنانچہ وہ کسی لمحے کو ضائع نہیں ہوتے دیتے تھے۔ ایک مرتبہ بیمار پڑ گئے تو ڈاکٹر نے ڈرِپ تجویز کی۔ ڈرِپ لگ گئی تو دائیں پہلو کی جیب سے چند کاغذات نکال لیے اور لیٹے لیٹے پڑھنے لگے۔ ڈاکٹر حیران ہوا، کہنے لگے کہ ڈرِپ اپنا کام کر رہی ہے، مَیں اپنا وقت کیوں ضائع کروں۔ اسی طرح ایک مرتبہ شدید بیمار ہوئے تو مَیں نے از راہِ ہمدردی عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب! چند دن آرام کر لیجیے، کام بعد میں ہوتا رہے گا۔ فرمانے لگے، میاں! اگر مَیں آپ کے مشورے پر عمل کرتا تو آج تک کچھ نہ کر پاتا۔ فرصت کے لمحات کا انتظار کرتا رہوں تو زندگی یوں ہی گزر جائے۔ ان کا ایک پھیپھڑا ان کے زمانہ طالب علمی (ایف اے) سے کام کرنا چھوڑ گیا تھا اور پھر ان کی جسمانی صحت بھی شاید کبھی قابلِ رشک نہیں رہی تھی، اس پر مستزاد یہ کہ وہ سال میں کم از کم ایک دو بار پریشان کن صورتِ حال کا شکار بھی ہو جاتے؛ لیکن مجال ہے کہ کبھی اپنے معمولات میں فرق آنے دیا ہو۔ صبح سویرے مسجد میں جانا، سیر کرتے ہوئے منزل کو دہرانا، سارا دن مطالعہ و تحریر و تصنیف میں مصروف رہنا اور اس دَوران اذان کی آواز سنتے ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ مسجد کا رُخ کرنا ان کے معمولات میں شامل رہا۔
ان کے کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، سونے جاگنے، پہننے اوڑھنے میں اس قدر باقاعدگی تھی کہ بعض اوقات گھبراہٹ ہوتی تھی کہ الٰہی! کیا کبھی ہم بھی ایسا کر سکیں گے؟ اگرچہ جسمانی طور پر توانا نہیں تھے، لیکن ہمہ وقت چوکس اور اپنے کاموں میں مصروف رہتے۔ بہت کم کھاتے اور بہت کم سوتے۔ کہیں آتے جاتے تو اپنا لنچ بکس ساتھ رکھتے، حتیٰ کہ کسی ضیافت میں بھی گھر سے لایا ہُوا پرہیزی کھانا کھاتے۔ ادویات میں ہومیو طریقہ علاج کو پسند کرتے اور غالباً اس کا مطالعہ بھی کر رکھا تھا۔
تصنع اور بناوٹ سے کوسوں دُور تھے۔ اپنی کتابوں کی تقریبات کو پسند نہیں کرتے تھے، لیکن اگر کسی مہربان نے اہتمام کر دیا تو اس کی دل شکنی نہ کرتے اور اپنی مصروفیات اور صحت کو بالاے طاق رکھ کر تشریف لے جاتے۔ اپنے نام اور کام کی تشہیر سے ہمیشہ پرہیز کیا اور بڑے بڑے عہدوں کو بھی نظر انداز کر دیا، حتیٰ کہ بعض علمی اداروں کی سربراہی پیش کی گئی، لیکن اس درویش نے صاف انکار کر دیا۔ ’ترقی‘ اور ’خوشحالی‘ کے لیے کبھی تگ و دَو نہیں کی اور نہ ہی کسی کی مداح سرائی کو تیار ہوئے۔ ان کے اس توکل اور قناعت پسندی نے انھیں زندگی بھر کسی کا محتاج نہیں ہونے دیا اور نہ کسی موقع پر انھیں دوسروں کو مدد کے لیے آواز دینا پڑی۔ اللّٰہ نے اس فقیر کو وہ شہنشاہی عطا کی کہ وہ خود دوسروں کی مدد کو تیار رہتے۔ فضول خرچی سے بچتے، لیکن بخل سے کام نہ لیتے۔ ضروریات کے لیے خرچ کرنا انھیں ناگوار نہ گزرتا، لیکن بلاوجہ ضرورت خرچ کرنے سے ضرور کتراتے اور اسے شکرانِ نعمت سے تعبیر کرتے۔
۲۰۱۱ء میں میری والدہ کا انتقال ہُوا اور ۲۰۱۳ء میں والدِ گرامی داغِ مفارقت دے گئے تو دونوں موقعوں پر نمازِ جنازہ میں شرکت اور تعزیت کے لیے تشریف لائے۔ یہ میرے لیے خاص نہ تھا، بلکہ اپنے تمام دوست احباب کے لیے ان کے یہی جذبات تھے۔ سرگودھا تشریف لاتے تو مجھے ضرور شرف بخشتے اور اسی طرح اپنے تمام متعلقین کی خوشی غمی میں شریک ہوتے۔
رفیع الدین ہاشمی چھ سال کے تھے کہ والدہ انتقال کر گئیں، ایک بہن تھی، جو بچپن ہی میں فوت ہو گئی، والدِ گرامی سیمابی طبیعت کے تھے، چنانچہ ہاشمی صاحب کی تعلیم و ترتیب کی ذمہ داری ان کے چچا عبدالرحمٰن ہاشمی نے سبنھال لی۔ تعلیمی مدارج میں بار بار رکاوٹیں حائل ہوئیں، لیکن وہ انھیں عبور کرتے رہے اور پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ہو گئے۔ ۱۹۶۶ء میں غزالی کالج جھنگ سے تدریسی خدمات کا آغاز کیا اور ۲۰۰۲ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بحیثیت پروفیسر سبکدوش ہوئے۔ وہ کچھ عرصہ کے لیے صدرِ شعبہ اردو بھی رہے۔ چونکہ مزاجاً ’افسر‘ نہ تھے، اس لیے خود ہی اس عہدے سے دستبردار ہو گئے۔ چھتیس سالہ منصبی اور پینتیش سالہ تصنیفی زندگی گزارنے کے بعد ۲۵؍ جنوری ۲۰۲۴ء کو دنیا سے رخصت ہوتے وقت وہ اپنے کردار و عمل سے خود کو ایک صالح اور مثبت فکر و نظر کا حامل انسان ثابت کر چکے تھے۔ وہ حالتِ نزع سے ایک سانس کھینچ کر گزر گئے اور بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہو گئے۔ امید ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان سے نرمی کا معاملہ فرمائیں گے۔
٭….٭….٭